My Scripts

Our Blog

The outline of what we do in this site

Sunday 16 March 2014

کیلاش

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ادراک
کیلاش

سبز پوش پہاڑ ، بل کھاتے دریا، مکئی کے کھیت، خوشبوبکھیرتی ہوا،زرق برق لباس میں ملبوش دوشیزائیں،انوکھی رسومات اور انتہائی منفرد تہواروں کی سرزمین۔۔۔وادیِ کیلاش۔۔جس کے حسن اورانوکھے پن نے برسوں سے دنیا بھر کے سیاحوں کواپنے سحر میں گرفتار کیا ہوا ہے۔۔۔۔آج کے جدید دور میں بھی کیلاش کے باسیوں نے اپنی تہذیب و ثقافت کوزندہ کیسے رکھا ہوا ہے؟۔۔۔اس سوال کی جستجو ہمیں ان پرخطر راستوں کی طرف لے گئی۔۔۔جو وادی کیلاش میں جانے کا واحد ذریعہ ہیں

وادیِ کیلاش چترال سے تقریباً 38کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔۔۔لیکن یہ مختصر فاصلہ انتہائی دشوار گزار راستوں اور پرہیبت پہاڑوں سے گزرکر ہی طے کیا جاسکتا ہے۔۔۔وادی کیلاش کی حیرت انگیز بودوباش دیکھنے کے شائقین کے لئے وادی آیون کے معلق پل سے بھی ڈگمگاتے ہوئے گزرنا پڑتا ہے جو کیلاش کی وادی میں قدم رکھنے کا واحد راستہ ہے۔۔۔کیلاش کی تینوں وادیوں بمبوریت، ریمبور اور بریراسی راستے سے گزرکر آتے ہیں۔۔وادی آیون کے معلق پل سے گزرنے کے بعد بھی آزمائشوں کے مرحلے ختم نہیں ہوتے۔۔۔۔ بادلوں کی دھند میں لپتے راستے،،بلند و بالا برفانی چوٹیوں کی وحشت اور انتہائی خطرناک موڑ۔۔۔ذرا سی بے احتیاطی سیکڑوں فٹ گہری کھائیوں میں ہمیشہ کی نیند سلاسکتی ہے۔۔۔۔لیکن یہ کیلاش کے حسن کا جادو ہی ہے۔۔۔جو دنیا جہاں سے سیاحوں کوان خطرات کی پرواہ کئے بغیر اپنی جانب کھینچ لیتا ہے۔

کافرستان کہلانے والی وادی کیلاش کئی حوالوں سے انسانی تہذیب وثقافت کا ایک عجوبہ ہے۔۔اس وادی کو کافرستان یوں کہاجاتا ہے کہ نہ وہ خدا کو مانتے ہیں ۔۔اورنہ ہی ان لوگوں کا کوئی مذہب ہوتاہے!!!
کیلاش کے لوگ کہاں سے آئے ۔۔۔ان کی تہذیب نے کہاں سے جنم لیا۔۔۔اس بارے میں بے شمار رائے تاریخ کے صفحات پر درج ہیں۔۔۔۔کسی نے کیلاش کے باسیوں کی اصل دراوڑ کی اس شاخ سے جوڑی ہے جو ابتداء میں مہاندیو کے ماننے والے چینی تھے۔
لیکن کیلاشیوں کی مرجن جیون کی رسومات قدیم اسرائیلوں سے بھی ملتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔چند مصنفین نے مغربی افریقہ کی ایک قوم ’’چوس‘‘ سے بھی ان کیلاشیوں کے تانے بانے جوڑے ہیں۔۔۔۔جبکہ کچھ کیلاشی کہتے ہیں کہ ان کے جدامجد یونانی تھے۔۔۔جو سکندراعظم کے ساتھ آئے تھے اور پھر یہیں رہ گئے تھے۔۔۔۔شاید اسی وجہ سے یونان نے اس علاقے کی تعمیر و ترقی میں خاصا کردار ادا کیا ہے ۔۔جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔۔۔۔دلچسپ امر یہ ہے کہ خود کو دنیا کی بہترین قوم کہلوانے والے جرمنیوں نے بھی انہیں آریاؤں کی اولاد ثابت کرنے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔۔۔۔۔۔اکثر کیلاشی اپنے آپ کو سیام یعنی تھائی لینڈ کے باشندے شمار کرتے ہیں۔۔۔شاید اسی وجہ سے ان کے لوک گیتوں میں سیام کا لفظ بارہا استعمال ہوتا سنائی دیتا ہے۔۔۔۔۔جب بارشیں رکنے کا نام نہیں لیتیں تو کچھ عورتیں یہ گیت گاتی ہیں کہ۔۔۔اے خدا ۔۔۔تو ہم سے بمبوریت لے لے اور ہمارا سیام ہمیں واپس لوٹا دے۔۔۔۔۔بعض یورپی سیاحوں نے بھی یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ کیلاش جیسی اقدار والے چند قبائلی تھائی لینڈ میں بستے ہیں۔۔۔۔۔حیرت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب کچھ کیلاشی یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ۔۔۔ہم افغانستان کے علاقے کافرستان سے ہیں۔۔۔جسے اب نورستان کہاجاتا ہے۔۔۔۔۔جبکہ چند ایسے محققین بھی سامنے آئے ہیں جو کیلاشیوں کو چترال کے باشندے ثابت کرنے پر کمربستہ ہیں۔۔۔۔۔لیکن کیلاشیوں کی اصل حقیقت کیا ہے!!!۔۔یہ ابھی تک ایک پیچیدہ معمہ بنا ہوا ہے۔

کیلاش کی سڑکوں اور گلیوں سے گزرتے ہوئے کہیں لکڑی کے گھروں کی کھڑکیوں سے جھانکتی سروں پر سیپیوں اور تاج والی ٹوپیاں پہنے حسین دوشیزائیں دکھائی دیتی ہیں۔۔کہیں دشوار گزار راستوں سے کاندھوں پر بوجھ اٹھائے گزرتے ہوئے بوڑھے نظر آتے ہیں۔۔۔اور کہیں بچپن کے معصوم کھیلوں میں مصروف شفاف گلابی رنگت والے حسین بچوں پر نظر جا ٹھہرتی ہے۔۔۔۔۔یہاں کے لوگ کیلاشی بولی بولتے ہیں۔۔۔اور کسی کو سلام کہنے کے لئے ۔۔۔۔ایش پاتا کہتے ہیں۔۔۔۔ایش پاتا کا مطلب ہے۔۔۔تم کیسے ہو۔

دوردراز ممالک سے آنیو الے سیاحوں کو یہاں سب سے بڑا مسئلہ کھانے پینے کا ہوتا ہے۔۔۔۔کیونکہ کیلاش کے کئی باشندے مردہ جانوروں کو بھی کھاجاتے ہیں۔۔جن میں کتے اور بلیاں بھی شامل ہیں۔۔۔اور کچھ تو ایسے بھی ہیں جو جانوروں کا کچا گوشت انتہائی رغبت سے کھاتے ہیں۔
کیلاش میں بسنے والوں کابنیادی ذریعہ معاش کھیتی باڑی اور مویشی پالنا ہے۔۔۔اس کے علاوہ سیاحوں کے لئے رہائش گاہیں بھی کرائے پر دی جاتی ہیں۔۔۔جن کی مد میں انہیں اچھا خاصا منافع مل جاتا ہے۔۔۔خواتین گھروں میں کیلاشی لباس بنتی دکھائی دیتی ہیں۔۔۔یہ لباس جہاں شوخ رنگوں سے سجایا جاتا ہے وہیں سیاح اس لباس کو منہ مانگے داموں خرید لیتے ہیں۔۔۔سیاحوں کے لئے یہ لباس ایسا خزانہ ہوتا ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔

کچھ کیلاشی جفاکش جنگلوں سے لکڑیاں کاٹ کر اپنا اور بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔۔۔دنیا بھر کی تمام قوموں سے جداگانہ تہذیب کی حامل وادی کیلاش میں بجلی کی فراوانی دکھائی دیتی ہے۔۔اس کا واحد سبب ہے وہ پن چکی جو دریا کے پانی سے پوری وادی میں روشنی مہیا کرتی ہے۔۔۔۔۔یہاں کے باسیوں نے دریا کے پانی سے آٹے کی چکی بھی ایجاد کی ہوئی ہے۔۔۔۔۔جہاں کیلاش کی محنت کش خواتین اپنے حصے کا رزق پیستی دکھائی دیتی ہیں۔

لڑکی کی کہانی
کیلاش کی وادی جتنی اجلی اور روشن دکھائی دیتی ہے۔۔۔یہاں کے لکڑی کے گھر اتنے ہی ملگجی اندھیرے میں ڈوبے دکھائی دیتے ہیں۔اور ان گھروں میں شیشے جیسی انگلیوں سے شوخ رنگ کپڑے بنتی کیلاشی خواتین ۔ایک عجیب ہی فضاء ہے اس جادونگری کی۔۔۔اس سرزمین پر قدم رکھنے کے بعد ایسا لگتا ہے۔۔۔جیسے ہم کسی اور ہی دنیا میں پہنچ گئے ہوں۔۔۔۔۔۔اسی دنیا میں ایک گھر شونافزے کا بھی ہے۔۔۔۔جو آنے والے تہوار چلم جوشی کے لئے ابھی سے تیاری کررہی ہے۔
یہاں بسنے والے ہرشخص کی زندگی میں کیلاش کے تہوار نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔۔لیکن شونافزے کے لئے چلم جوشی کی کچھ خاص اہمیت ہے۔۔بدلتے موسموں کے ساتھ آنے والا تہوار شونافزے کے چہرے پرماضی کے وہ حسین رنگ لہرا جاتا ہے۔۔۔جو اس کی زندگی کا حاصل ہیں۔۔۔ایسے ہی ایک تہوار میں کوئی اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھربھگا لے آیا تھا۔۔۔اور یوں یہ دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے تھے۔


چلم جوشی کا تہوارمئی کے وسط میں منایا جاتا ہے۔۔۔جب بہار اپنے پورے عروج پر ہوتی ہے۔۔اس تہوار کے دن مقامی لوگ جڑی بوٹیوں کے پانی سے غسل کرتے ہیں اور جوان جوڑے رقص کرتے ہیں۔۔زرق برق لباس دوشیزائیں، موتیوں سے سجی ٹوپیاں ، اور ٹوپیوں پر سجے مرغ زریں کے پروں کے گچھوں سے بنے پھول ، ہوہو کی آوازوں کا شور اس تہوار کو زندہ و جاوید بنا دیتا ہے۔۔۔یہ تہوار تین دن تک دن ورات مسلسل جاری رہتا ہے۔۔۔۔لوگ جب تھک جاتے ہیں تو گھروں کی چھتوں اور کھڑکیوں سے تہوار کے مناظر دیکھتے ہیں۔۔۔اور پھر تازہ دم ہوکر ایک بار پھرتہوار کے رنگوں میں گم ہوجاتے ہیں۔۔اور لڑکیاں ڈھولک کی تھاپ پر گول گول دائروں میں دھیما دھیما رقص کرتی جاتی ہیں۔۔۔۔۔لیکن یہ عام رقص نہیں ہوتا۔۔۔بلکہ یہ دھیما دھیما بہتا ہوا رقص ان کیلاشیوں کی مذہبی عبادت میں شامل ہے۔۔۔۔اسی تہوار میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کا فرار بھی ہوتا ہے۔۔۔جسے مقامی زبان میں شادی کہتے ہیں۔

شادیوں کا طریقہ کار۔۔۔اور تہوار
وادی کیلاش میں شادیوں کا بھی عجیب ہی دستور ہے۔۔۔یہاں نہ اسلامی اصولوں کے مطابق نکاح ہوتا ہے۔۔۔نہ ہندوؤں کی طرح سات پھیرے لئے جاتے ہیں۔۔۔۔نہ کرسچنز کی طرح کسی چرچ میں جایا جاتا ہے۔۔۔۔یہاں تو بس کسی تہوار میں جسے جو پسند آجائے ، اس کا ہاتھ پکڑتا ہے اوربھگاکر گھر لے آتا ہے۔۔۔۔یہاں اسی کو شادی کہتے ہیں۔۔۔۔اگلے دن لڑکی کے گھر والے وہ تمام سامان ، مال مویشی اور زیورات وغیرہ جو لڑکی استعمال کرتی تھی۔۔وہ سب خوش دلی کے ساتھ اس کے شوہر کو سونپ دیتے ہیں۔جن کی مالیت چالیس پچاس لاکھ تک چلی جاتی ہے۔۔۔حیرت کی انتہاء اس وقت ہوتی ہے۔۔۔جب کوئی بھی شادی شدہ عورت اپنے شوہر کی موجودگی میں کسی بھی مرد کا ہاتھ پکڑ کر اس کے ساتھ چلی جاتی ہے۔۔۔ ایسے میں نہ کوئی جھگڑا ہوتا ہے نہ مرنے مارنے کی کوئی بات ہوتی ہے۔۔۔سب کچھ خوش اسلوبی سے انجام پاجاتا ہے۔

کیلاش میں چلم جوشی کے علاوہ تین تہوار اور منائے جاتے ہیں ۔۔۔پورلPorl کا تہوارستمبر کے آخری دنوں اور اکبوتر کی ابتدائی تاریخوں میں آتا ہے اور چاؤمس کا تہواربیس دسمبر کی تاریک راتوں میں منایا جاتا ہے۔۔۔۔ چاؤمس کے تہوار کے دس دن بعد جوشی کے تہوارآغاز ہوتا ہے۔


ان تہواروں میں چاؤمس کا تہوار اپنی نوعیت کے اعتبار سے انتہائی پراسرار اور انوکھا ہوتا ہے۔۔۔چاؤ مس کی رسومات دس راتوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔جن میں رقص کے علاوہ بدروحوں کو بھگایا جاتا ہے، مقدس جگہوں پر سیاہی سے تصاویر بنائی جاتی ہیں۔۔۔ اور گھر کا بڑا بیٹا مویشی خانے کی چھت پر بیٹھ کر اخروٹ اورنمک کے آمیزے سے روٹیاں بناکر تقسیم کرتا ہے۔۔۔اور یوں یہ تہواراپنے اختتام کو پہنچ جاتا ہے۔ ۔

آج کے مہذب معاشرے میں کیلاش کی عجیب و غریب رسومات دنیا کے لئے ایک معمہ بنی ہوئی ہیں۔۔۔۔۔خاص طور پر وہ رسم جو وہ گھربنانے کے بعد ادا کرتے ہیں۔۔۔۔کیلاش کے باشندے اپنے گھر کا ایک کونہ مخصوص کرتے ہیں اور فرض کرتے ہیں کہ یہاں پیور نامی ایک فرشتہ یا دیوتا موجود ہے۔۔۔۔جواس وقت تک خوش نہیں ہوتا۔۔جب تک اسے بھینٹ نہیں دی جاتی۔۔۔۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جس کونے میں دیوتا یا فرشتے کے لئے جگہ مخصوص کی جاتی ہے وہاں صرف مرد ہی جاسکتے ہیں۔۔عورتوں اور بچوں کو جانے کی وہاں اجازت نہیں ہوتی۔۔۔کیلاش کے مقامی لوگ چار دیوتاؤں کو مانتے ہیں۔۔۔جن کے نام ہیں ۔۔۔مہاندیو، ورن، پرابہ اور گریمون۔

بھینٹ چڑھانے کے لئے یہ لوگ کسی توانا جوان یا بزرگ کو منتخب کرتے ہیں۔۔۔وہ بزرگ ایک مخصوص جگہ پر جاتا ہے جہاں اپنی دانست میں پاک ہوسکے۔۔۔وہاں وہ پانی سے پانچ بار اپنے ہاتھ پاک کرتاہے۔۔۔اور خنجر دھوتا ہے۔۔۔۔۔اور پھر یہ بزرگ کچھ کلمات پڑھتے ہوئے ہاتھ میں خنجر اٹھائے گلیوں سے گزرتے ہوئے اس مقام کی طرف بڑھتا ہے۔۔۔جہاں ایک بھینٹ اس کا انتظار کررہی ہے۔


صدیوں پہلے کا انسان اپنی جان و مال کی حفاظت اورروزگار کے معاملات میں بہتری کے لئے دیوتاؤں کے سامنے بھینٹ چڑھایا کرتا تھا۔۔۔۔۔یہ بھینٹ کہیں جانور کی ہوتی تھی ۔۔اور کہیں نوخیز دوشیزہ کی۔۔۔۔۔جیسے جیسے انسان ترقی کرتا گیا اسے قدرتی آفات اور فطرت کے اصول سمجھ آتے گئے۔۔۔اورفرضی دیوتاؤں کے بت پاش پاش ہوتے گئے۔۔۔لیکن بھینٹ چڑھانے کی یہ رسم کچھ قبیلوں میں آج بھی موجود ہے۔۔۔جن میں سرفہرست ہے۔۔۔کیلاش قبیلہ!!!!۔۔۔۔۔لیکن وادی کیلاش میں چڑھائی جانے والی بھینٹ کی داستان سب سے مختلف بھی ہے ۔۔۔اور پراسرار بھی!

کیلاش کے تقریباً تمام باسی صدیوں سے دیوتاؤں کو بھینٹ چڑھاتے آرہے ہیں۔۔۔۔گو کہ آج کے جدید دور میں بھینٹ چڑھائے جانے کی رسموں کی شدت میں کمی تو آگئی ہے۔۔۔لیکن آج بھی کیلاش کے ہر گھر میں ایک کونا مخصوص کیاجاتا ہے۔۔۔جہاں ان کے عقائد کے مطابق کوئی دیوتا یا فرشتہ رہتا ہے۔۔۔ وادی کیلاش میں جب بھی کوئی نیا گھر تعمیر ہوتا ہے تو ایک مخصوص کونے پر بھینٹ کا تازہ خون چھڑکنا فرض سمجھا جاتا ہے ۔۔۔حیرت اس وقت ادراک کے دریچوں پر دستک دیتی ہے ۔۔۔جب یہ علم ہوتا ہے کہ کیلاش کے ہر گھر میں ہرمہینے یہ بھینٹ چڑھائی جاتی ہے۔

بھینٹ چڑھانے والا آدمی پہلے تو کالے بکرے کی گردن کاٹتا ہے۔۔۔پھر اس کی گردن پوری طاقت سے توڑ مروڑ دیتا ہے۔۔۔۔جب بکرے کی گردن سے تھل تھل کرتا تازہ خون نکلتا ہے تو بھینٹ چڑھانے والایہ تازہ خون اپنے ہاتھوں کے پیالوں میں بھر کر دیوار کے اس کونے پر چھڑک دیتا ہے۔۔۔جہاں ان کے مطابق دیوتا موجودہوتا ہے۔۔۔۔کیلاش کے باسیوں کا عقیدہ ہے کہ جب ہم دیوار کے کونے کو بکرے کی بھینٹ دیتے ہیں تو اس طرح یہ دیوتا ہمارے خاندان کی حفاظت کرتا ہے۔۔۔اور قدرتی آفات سے انہیں محفوظ رکھتا ہے۔۔۔۔
اس کے علاوہ ان کی روزی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔۔۔اور مال مویشی بھی بیماریوں اور چوریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔
بھینٹ چڑھائے گئے بکرے کا گوشت صرف مرد ہی کھاسکتے ہیں۔۔۔عورتوں کو یہ گوشت کھانے کی اجازت نہیں ہوتی۔۔۔۔اگر کوئی عورت غلطی سے یہ گوشت کھالے تووہ زندگی بھرکے لئے ناپاک اور منحوس تصورکی جاتی ہے۔۔۔۔۔اس غلطی کا صرف ایک ہی ازالہ ہوتا ہے۔۔۔اور وہ یہ ہے کہ وہ عورت بھی ایک بکرے کی بھینٹ دے اور اس کا گوشت مردوں کو کھلائے۔۔۔۔اس طرح اس عورت کی ناپاکی بھی ختم ہوجاتی ہے۔۔اوروہ نحوست سے بھی پاک ہوجاتی ہے۔

سطح زمین سے دو، ڈھائی ہزار فٹ بلندی پرکیلاش کی وادیوں میں زندگی کے اتنے مختلف اور انوکھے رنگ بکھرے ہوئے ہیں کہ دنیا میں نہ کہیں ان کی کوئی مثال ملتی ہے۔۔ نہ کوئی مزاج ملتا ہے۔۔اور نہ کوئی زبان ملتی ہے۔
کیلاش کے باسی کیلاشی زبان بولتے ہیں۔۔۔۔یہ زبان ’’دری‘‘ زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔۔۔جس طرح کیلاش کے قبیلے کے تانے بانے مختلف اقوام سے جوڑے جاتے ہیں۔۔اسی طرح کیلاشی زبان کے بارے میں بھی آج تک کوئی حتمی رائے سامنے نہیں آئی ہے۔۔۔۔۔
لسانیات کے ماہر رچرڈ اسٹرانڈ کا کہنا ہے کہ کیلاش کے باسیوں نے یہ نام قدیم کافرستان سے مستعار لیا ہے۔
ایک اور حوالے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کیلاش کا نام دراصل ’’کاسوو‘‘ تھا ۔۔جو کہ بعد میں ’’کاسیو‘‘ استعمال ہونے لگا۔۔۔’’کاسیو ‘‘ نام نورستان کے قبائل نے یہاں آباد قبائل کے لئے مخصوص کر رکھا تھا۔۔۔آنے والے ادوار میں یہ ’’کاسیو‘‘ نام ’’کالاسایو‘‘ بنا اور پھررفتہ رفتہ ’’کالاسہ ‘‘ اور پھر ’’کالاشہ‘‘ اور اب ’’کیلاش‘‘ کے نام سے پکارا جانے لگا۔

۔۔۔کیلاش کے باسیوں کے زیادہ تر تہوار اترتے چڑھتے موسموں پر منحصر ہیں۔۔۔۔سردی ، گرمی ، خزاں بہار۔۔۔۔ان چاروں موسموں کی مختلف کیفیات ان کے تہواروں میں جابجا دکھائی دیتی ہیں۔
وادی کیلاش میں منائے جانے والے زیادہ تر تہوار ان کے دیوتا نگت تیہار کے بتائے ہوئے ہیں۔۔۔۔صدیوں پہلے نگت تیہار ان کا روحانی پیشوا تھا۔۔۔جس کی باتوں پر عمل کرنا آج بھی ان کے نزدیک نیکی کی علامت ہے۔۔۔نگت تیہار کے بارے میں کیلاش کے قبیلے میں عجیب و غریب روایات پھیلی ہوئی ہیں۔


پورل کا تہوار بھی نگت تیہار کے حکم پر منایا جاتا ہے۔۔۔۔جاتے ہوئے ستمبر اور آتے ہوئے اکتوبرمیں یہ تہوار وادی کیلاش میں ہر سو رنگ بکھیر دیتا ہے۔۔۔یہ تہوار دیکھنے لوگ ملک کے طول و عرض سے ہی نہیں آتے۔۔۔بلکہ اس تہوار کا جادو سیاحوں کوسات سمندر پار سے بھی اپنی جانب کھنچ لیتا ہے۔۔۔یہاں تہوار میں صرف رقص ہی نہیں کیا جاتا۔۔بلکہ ڈھول بھی بجائے جاتے ہیں۔تالیاں بھی بجائی جاتی ہیں۔۔اور مویشیوں کا دودھ بھی تقسیم کیا جاتا ہے ۔
ڈھول کی تھاپ اور تالیوں کے ترنم میں یہاں ایک مخصوص گیت گایا جاتا ہے۔
’’اے خزاں پت جھڑ کا موسم جارہا ہے۔۔۔۔اے سردیوں کی مدھر چاندنی ہمارااستقبال کر
ہمیں تیز بارشوں اور برف باری کے عذاب سے بچا۔۔۔دیکھ تجھے خوش کرنے کے لئے ہم اپنے گھروں سے نکل آئے ہیں۔۔اور تیرے آنے کا جشن منا رہے ہیں۔‘‘

ڈھول بجانا۔۔تالیاں بجانا اور دودھ تقسیم کرنا ان کے دیوتا نگت تیہارکا حکم ہے۔۔۔جس کے حکم کی بجاآوری یہاں مذہبی اقدار کی اہمیت رکھتی ہے۔۔۔۔ یہ تہوار سارے کیلاش میں خوشی کی ایسی لہر دوڑا دیتا ہے جسے شراب کی لذت مزید دوچند کردیتی ہے۔۔۔۔

میت کی تاریخ۔۔۔پہلا دن
دنیا کی انوکھی ثقافت اور روایات والے قبیلے کیلاش کے باشندوں کی ایک اور عجیب و غریب روایت اس وقت سامنے آتی ہے۔۔۔جب کیلاش میں کسی کا انتقال ہوجائے۔۔۔کسی کے انتقال پر کیلاش کے باسی اپنا گھرتک لٹا دیتے ہیں۔۔۔۔کیلاش میں یہ کہاوت مشہور ہے کہ یہاں جس گھر میں کسی کی موت ہوجائے تو سمجھ لو اس خاندان کو موت آگئی ۔۔۔یہاں شادی بیاہ سے زیادہ اخراجات اموات پر ہوتے ہیں۔۔۔وادی کیلاش میں عام طور پر کسی کے انتقال پر بیس سے تیس لاکھ روپے تک خرچ آجاتا ہے۔۔۔میت والا خاندان اپنے سارے مال مویشی بیچ دیتا ہے۔۔۔گھر بھی فروخت کرڈالتا ہے اور گھر کا سامان بھی۔۔۔۔۔اور پھراس خاندان کی ساری زندگی قرض اتارنے اور نئے سرے سے مال و اسباب جمع کرنے میں خرچ ہوجاتی ہے۔

آج کیلاش کی تینوں وادیوں میں اداسی پھیلی ہوئی ہے۔۔مسکراتی آنکھوں میں آنسو اٹکے ہوئے ہیں۔۔گنگناتے ہونٹ خاموش ہیں۔۔۔۔اور سرخ و سپید چہروں پر دکھ کی پیلاہٹ تیر رہی ہے۔۔۔۔آج یہاں ایک نوجوان دوشیزہ ’’شیموئے‘‘ کی موت واقع ہوگئی ہے۔۔۔جس کی شادی کو صرف چھ ماہ کا عرصہ ہوا تھا۔۔۔کچھ عرصہ قبل یہاں ایک جاپانی سیاح آیا تھا۔۔۔اور اسے شیموئے پسند آگئی تھی۔۔۔۔اس سیاح نے تہوار کا انتظار کیا۔۔۔۔اور تہوار کے آتے ہی جاپانی سیاح نے شیموئے سے شادی کرلی۔
جاپانی سیاح اکثر کیلاش کے باشندوں سے کہتا تھا کہ کیلاش کی ثقافت قدیم جاپانی ثقافت سے بے حد مماثلت رکھتی ہے۔۔یہی وجہ تھی کہ وہ ایک کیلاشی دوشیزہ پر اپنا دل ہار بیٹھا تھا۔۔۔شادی کے دوماہ بعد ہی جاپانی سیاح جاپان چلا گیا۔۔۔تاکہ اپنی بیوی کو جاپان بلانے کے انتظامات کرسکے۔۔۔لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔۔۔۔۔جاپانی سیاح کے جانے کے صرف دوماہ بعد ہی شیموئے دل کی بیماری کے باعث اپنی جان دے بیٹھی!!۔۔۔۔اور آج سارا کیلاش شیموئے کی لاش کے قریب کھڑا عجیب انداز میں بین کررہا ہے۔

یہاں جب کسی کی موت واقع ہوجاتی ہے تو لاش کو تین دن تک دفنایا نہیں جاتا۔۔۔۔اگر بارش یا برف باری ہوجائے تو لاش گھر کے اندر رکھ دی جاتی ہے۔۔۔۔لیکن چاہے آندھی آئے یا طوفان۔۔تین دن سے پہلے کسی لاش کے نصیب میں تدفین نہیں ہوتی۔۔۔۔بس میت کو چارپائی پر رکھ دیا جاتا ہے۔۔اور مرنے والے کی من پسند اشیاء بھی اس کے قریب رکھ دی جاتی ہیں۔۔۔چاہے وہ قیمتی زیور ہو۔۔۔میوہ ہو۔۔۔کھلونے ہوں ۔۔۔آرائشی اشیاء ہوں یا تمباکو ہو!!!

وادی کیلاش کی مسکراتی وادی میں جب کسی گھر سے کوئی میت اٹھتی ہے تو ہر طرف سوگ منایا جاتا ہے۔۔تینوں وادیاں دکھ میں ڈوب جاتی ہیں۔۔۔۔خوشی کی تمام تقریبات منسوخ ہوجاتی ہیں۔۔۔۔اور اس دکھ کی گھڑی میں ہزاروں افراد اپنے تمام ضروری کام چھوڑ کر میت والے خاندان کی دل جوئی کے لئے جمع ہوجاتے ہیں۔۔چاہے دن ہو یا رات ہو۔۔۔۔چاہے راستوں میں جتنی بھی دشواریاں ہوں۔۔۔چاہے موسم جتنا بھی خراب ہو۔

کیلاش میں جب کسی کی موت واقع ہوتی ہے تو لوگ اس کے گرد کھڑے ہوکر الگ الگ انداز میں بین کرتے ہیں۔۔ قریبی لوگ مرنے والے کی خوبیوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔۔اور رونے والے مزید دھاڑیں مارمارکرروتے چلے جاتے ہیں۔
کوئی کہتا ہے۔۔۔تم کتنی اچھی تھیں۔۔۔۔بچوں سے کتنا پیار کرتی تھیں۔۔ماں باپ کی کتنی خدمت کرتی تھیں!!
کوئی کہتا۔۔۔۔۔تم جب گھر سے باہر نکلتی تھیں تو ہر ایک چھوٹے بڑے کو ایش پاتا کہتی تھیں۔۔۔تمہارا اخلاق کتنا اچھا تھا۔۔۔
کوئی یوں بین کرتا۔۔۔ہائے تم کیوں مرگئیں۔۔۔۔ابھی تو تمہارے خوشیاں دیکھنے کے دن تھے۔۔۔کچھ دن بعد تو تمہارا شوہر آنے والا تھا۔
انہی سوگواران میں بوڑھا ’’دُرشابا‘‘ بھی موجود ہے۔۔۔۔درشابا شیموئے کا چاچا ہے۔۔۔اور اس سے اپنی بھتیجی کے جانے کا دکھ برداشت نہیں ہورہا۔۔۔اور وہ رو رو کر فریاد کررہا ہے۔
شیموئے ۔۔واپس آجاؤ۔۔۔تم اپنے بوڑھے چاچا کو چھوڑ کر کیوں چلی گئی ہو۔۔۔میں تمہارے شوہر کو کیا جواب دوں گا۔۔۔۔بولو شیموئے ۔۔تم جواب کیوں نہیں دے رہی ہو‘‘

وادی کیلاش میں ایک مخصوص جگہ ہے جہاں کی دیواروں پر مارخورکی تصاویر کندہ ہیں۔۔۔کیلاش میں جب کسی کی موت واقع ہوجاتی ہے تو میت اس مخصوص جگہ لائی جاتی ہے۔۔۔۔اور پھر مقامی لوگ عجیب و غریب کلمات پڑھنے لگتے ہیں۔۔۔جیسے یہ کوئی عبادت گاہ ہو۔۔۔اس مخصوص جگہ کا ایک اور انوکھاپن یہ بھی ہے کہ یہاں روشندان دیوار میں نہیں بلکہ چھت پر ہے۔۔۔جہاں سے آتی ہوئی روشنی میں روتے ہوئے اور بڑبڑاتے ہوئے کیلاشی انتہائی پراسرار دکھائی دیتے ہیں۔۔۔یہ منظر دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ہم اکیسویں صدی میں نہیں۔۔۔۔۔بلکہ قدیم وقتوں کی الیف لیلوی داستان کا حصہ ہوں۔

میت کے پہلے دن ہزاروں لوگ جمع ہوتے ہیں۔۔۔ان لوگوں کو کھانے میں روٹی اور پنیر دیا جاتا ہے۔
روٹیوں کی بھی یہاں ایک دلچسپ کہانی ہے۔۔۔۔جب کسی وادی میں کسی کی موت واقع ہوجاتی ہے تو تینوں وادیوں کے ہر گھر میں آٹا پہنچادیا جاتا ہے۔۔۔اور ہر گھر سے سیکڑوں روٹیاں پکا کر میت کے گھر لائی جاتی ہیں۔۔۔کیلاش کے نوجوان اور بوڑھے کمر پر روٹیوں کے ٹوکرے اٹھائے اونچے نیچے دشوارگزار راستوں سے گزرتے ہوئے میت والے گھر پہنچتے ہیں۔۔۔۔ہزاروں لوگوں کو ایک ساتھ کھانا کھلانا مشکل کام ہے ۔۔اس لئے لوگوں کو مختلف ٹولیوں کی صورت میں کھانا تقسیم کیا جاتا ہے۔۔۔۔کھانے کی یہ تقسیم سورج غروب ہونے تک جاری رہتی ہے۔۔۔اور پھر آہستہ آہستہ رات کا پرندہ پرپھیلاتا چلاجاتا ہے اور کیلاش کی وادی اندھیرے میں ڈوبتی چلی جاتی ہے۔

دوسرا دن ۔
دوسرے دن کا سورج کیلاش کے سربلند پہاڑوں سے ابھرتا ہے۔۔۔۔اور غم میں ڈوبی ہوئی وادی کو روشنی میں نہلادیتا ہے۔
میت کے دوسرے دن گو کہ لاش پھولنے لگی ہے۔۔اور بدبوبھی پھیلنے لگی ہے۔۔۔پھر بھی میت کے گردلوگوں کا ہجوم موجود ہے۔
میت کے دوسرے دن ایک بزرگ کو سارے معاملے سنبھالنے کے لئے نگران مقرر کردیا جاتا ہے۔۔۔شیموئے کی تدفین اورمیت کی رسومات کی ذمہ داری وادی کا بزرگ ’’دریون بابا‘‘ سنبھال رہا ہے۔۔دریون بابا لاٹھی ٹیکتا میت کی طرف بڑھ رہا ہے۔۔۔اسے تینوں وادیوں سے آئے ہوئے افراد کی ضروریات کا خیال بھی رکھنا ہے۔۔۔میت کے خاندان کے معاملات بھی حل کرنا ہے۔۔۔۔اورکھانے کی نگرانی بھی کرنی ہے۔۔۔۔ہر کام اس بزرگ کی رائے لیکر کیا جاتا ہے۔۔۔اور پھر اس بزرگ کی زیرنگرانی تمام سوگواران کو کھانا کھلایا جاتا ہے۔

یہاں کھانے پکانے کے طریقے کار بھی کم حیرت انگیز نہیں ۔۔۔۔تقریباً سو، ڈیڑھ سو کے قریب گائے ، دبنے اور بکرے کاٹے جاتے ہیں۔۔۔اور ان کا گوشت آنتوں سمیت پکانے کے لئے رکھ دیا جاتا ہے۔۔نہ گوشت کو پانی سے دھویا جاتا ہے۔۔نہ خون صاف کیا جاتا ہے۔۔اور کھانے میں مصالحہ جات ڈالنے کے تکلفات بھی گوارا نہیں کئے جاتے۔
کھانا تیار ہوتے ہی لوگ جوک درجوک آتے ہیں۔۔۔مختلف ٹولیوں میں کھانا کھاتے ہیں۔۔۔۔دریون بابا کی عقابی آنکھیں تمام معاملات دیکھے جاتی ہیں۔۔۔۔۔اور دیکھتے ہی دیکھتے دوسرے دن کا سورج غروب ہوجاتا ہے۔۔۔اور آسمان کی چادر ستاروں سے بھرجاتی ہے۔

تیسرا دن۔
دکھ میں ڈوبی ہوئی آنکھیں ابھی نیند کے خمار میں ہی تھیں کہ تیسرے دن کے سورج کی دستک نے ایک بار پھر سوئے ہوئے منظروں کو بیدار کردیا۔۔۔میت کی آخری رسومات ادا کرنے کے لئے کیلاش کے مقامی میت کے گرد اکٹھے ہونے لگے۔

مقامی لوگ میت کو چارپائی پر اٹھائے روتے پیٹتے ایک مخصوص مقام تک لے جاتے ہیں۔۔دشوارگزار راستوں سے گزرتے ہوئے، آنکھوں میں آنسوؤں کے موتی پروتے ہوئے اور دل میں یادوں کے طوفان دباتے ہوئے شیموئے کی میت آگے بڑھتی جاتی ہے۔۔۔اور پھر ایک مخصوص جگہ پہنچ کرشیموئے کو دفنا دیتے ہیں۔
پہلے کیلاش کے سادہ لوح افراد تابوت پر ایک بھاری پتھر رکھ کر چلے جاتے تھے۔۔۔لیکن اس طرح رات کی تاریکی میں کچھ لالچی لوگ چوری چھپے آتے اور تابوت کھول کرقیمتی اشیاء چوری کرلیتے ۔۔۔ان چوروں سے بچنے کے لئے اب میت کوتابوت سمیت قبرمیں دفنایا جاتا ہے۔۔۔تاکہ قیمتی اشیاء چوری ہونے سے بچ جائیں۔۔۔۔۔
آخر کار شیموئے کو سپرد خاک کردیا گیا ہے۔۔۔اورحزن وملال میں ڈوبا یہ قافلہ دوبارہ لکڑی کے انہیں مکانوں کی طرف بڑھ گیا۔۔جو صدیوں سے ان کی جائے امان ہیں۔
وادی کیلاش کی ایک اور مختلف رسم یہ بھی سامنے آئی کہ یہاں تابوت بنانے والے نہ اپنی محنت کے پیسے لیتے ہیں نہ لکڑی کے۔۔۔بس یہ تابوت زندہ لوگوں کی طرف سے مرنے والے کے لئے آخری تحفہ سمجھا جاتا ہے۔


تاریخ کے طالب علموں کو اس امر پر حیرت ضرور ہوگی کہ آج سے ہزاروں سال پہلے مصر کے فرعون اور باشندے بھی مرنے والے کی قیمتی اشیاء اس کے ساتھ ہی دفن کردیتے تھے۔۔۔شاید یہی وجہ ہے کہ کچھ تاریخ دان کیلاش کے افراد کو مصری تہذیب کی باقیات سمجھتے ہیں۔

کیلاش کے قبائلی رواجوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بیسویں صدی عیسوی سے پہلے تک یہاں کے رواج انتہائی زیادہ اور وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے تھے۔۔۔لیکن گذشتہ صدی میں سائنس و ٹیکنالوجی کے اٹھنے والے طوفان نے ان کیلاشیوں کی زندگیوں میں تبدیلیاں برپا
کردی ہیں۔۔کئی کیلاشی نوجوان روزگار کی تلاش میں ملک کے دور دراز علاقوں میں پہنچ گئے ہیں ۔۔اور انہوں نے صدیوں پرانے رسم و رواج ترک کردئیے ہیں۔۔کیلاش کے باسیوں کی سوچ یہ بھی ہے کہ آج کل کیلاش کے قبیلے میں تعلیم کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔۔جو جو پڑھ لکھ جاتے ہیں وہ کیلاش کی روایات اور رسومات کو بوسیدہ اور فرسودہ قرار دے کر اپنا رہن سہن تبدیل کرلیتے ہیں۔اور شہروں میں چلے جاتے ہیں۔۔اس کی ایک تازہ مثال ایک لیکشن Lakshanنامی کیلاشی دوشیزہ کی ہے۔۔جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد پائلیٹ بن گئی ہے۔جہا ں کسی کیلاشی دوشیزہ کا پائلیٹ بننا کیلاش کے لئے اعزاز ہے۔۔وہیں ایک خوف بھی ہے۔۔اور وہ ہے اپنی قدیم رسومات اور ثقافت کے معدوم ہونے کا خوف۔۔۔۔۔دیکھا جائے تو آج کل کیلاش کا یہ قبیلہ اپنی بقا کی جنگ لڑرہا ہے۔۔۔ گو کہ دنیا کی کئی تہذیبیں جن میں یونان سرفہرست ہے۔۔کیلاش کی تہذیب و ثقافت کو قائم رکھنے کے لئے اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔۔۔لیکن یہ وادی کیلاش میں بسنے والوں کی مستقل مزاجی ہی ہے ۔۔جس نے بیرونی دنیا کے اثرات سے اب تک اپنے جداگانہ وجود کو برقرار رکھا ہوا ہے۔

کیلاش کے باشندے کہاں سے آئے۔۔۔ان کی رسم و رواج کتنی قدیم ہیں۔۔اور ان کا تعلق کس قوم سے ہے۔۔۔ان سوالوں کے سیکڑوں جواب سامنے آچکے ہیں۔۔۔لیکن کیلاش قوم کی حقیقت کیا ہے۔۔۔۔اس راز کا ادراک حاصل کرنے میںآج بھی برسوں کی تحقیق درکار ہے۔

Harmajadooon


بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان ، نہایت رحم والا ہے

Intro
سانحہ 9/11کے بعد دنیا اچانک جنگ کا میدان بن کر رہ گئی۔۔۔دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی یہ جنگ افغانستان، اعراق اور اب پاکستان کے شمالی علاقوں تک پھیل گئی ہے۔۔۔کیا یہ جنگ اس عالمی اور آخری جنگ کی ابتدائی کڑی تو نہیں ۔۔۔جس جنگ کے ہونے پر تمام اہل کتاب مذاہب متفق ہیں؟

دنیا کے تمام مذاہب اس امر پر متفق ہیں کہ ۔۔۔انسانیت ایک آخری ہولناک جنگ کی لپیٹ میں کبھی بھی آسکتی ہے۔۔۔۔جسے کوئی Armageddon، کوئی الملحمتہ العظمیٰ اور کوئی ہرمجدون کا نام دیتاہے۔۔۔ اس وقت دھشت گردی کے خلاف جو جنگ لڑی جاری ہے۔۔۔کیا یہ ہی Armageddon یا انسانیت کی آخری جنگ ہے؟


سانحہ 9/11کے بعد دنیا اچانک ہی خوفناک تباہی کے حصار میں پھنس گئی ہے۔۔۔۔امن کا گہوارا کہلانے والی زمین ان دنوں جنگ کے شعلوں میں جل رہی ہے۔۔دنیا کے ہرملک کا ہرشہری کسی نہ کسی طرح اس جنگ سے متاثر ہورہا ہے۔۔حیرت کی بات یہ ہے کہ جس دشمن سے بیسیوں ممالک مل کر جنگ لڑرہے ہیں۔۔وہ کہیں دکھائی ہی نہیں دیتا۔۔۔اس دشمن کے ہونے میں جتنے ابہام ہیں۔۔۔اتنی ہی اس کے نہ ہونے کے حق میں دلیلیں موجود ہیں۔۔۔اس دشمن کی تلاش میں جنگ کا دائرہ کسی بھی ملک کی سرحدوں تک پھیل جانا معمول کی بات ہے۔۔۔۔۔۔ان دنوں دنیاکے سروں پر بے یقینی کا ایسا خوف منڈلا رہا ہے جو انہیں مارتا بھی نہیں۔۔اور زندہ بھی رہنے نہیں دیتا۔۔۔۔۔۔۔۔بیشترمذہبی مکاتب فکر تشویش بھرے لہجے میں یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی عالمی جنگ اس جنگ کی طرف اشارہ کررہی ہے۔۔۔جسے آرماگیڈن یا ہرمجدون کہا جاتا ہے۔۔۔اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ۔۔۔یہ جنگ اس زمین پر لڑی جانے والی آخری جنگ ہوگی۔۔۔۔اور اس کے بعد زمین کے سینے پر سجایا گیا زندگی کا کھیل ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سمیٹ لیا جائے گا۔


Nostradamus نے اپنی کتاب کے ایک باب ۔۔۔۔۔وقت کی کھڑکی ۔۔۔۔۔میں علامتی انداز میں کہا تھا۔۔۔ دوپرندے بلندترین عمارتوں سے ٹکرائیں گے۔۔۔۔اور یہ ہی واقعہ پہلے عالمی جنگ اور پھر قیامت کا پیش خیمہ بن جائے گا۔۔۔۔۔کیاNostradamusکی پیش گوئیاں اس قابل ہیں کہ ان پر اعتبار کیا جائے؟

آرماگیڈن یا ہرمجدون کے کیامعنی ہیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔وہ کون سا میدان ہوگا۔۔۔جو اس جنگ عظیم کا بار سہنے کی ہمت رکھتا ہے۔۔۔۔۔آخر اس میں ایسا کیا ہوگا کہ۔۔۔۔ یہ جنگ انسانی زندگی کے انجام کا۔۔۔ آغاز بن جائے گی!!!

ہرمجدون عبرانی زبان کا لفظ ہے۔۔۔جو دو مقطعوں سے مل کر بنا ہے۔۔۔۔عبرانی زبان میں ’’ہر‘‘ پہاڑ کو کہتے ہیں۔۔۔اور’’ مجیدو‘‘ فلسطین کی ایک وادی کا نام ہے۔

ہرمجیدو کا خطہ زمین اسٹریٹیجیکل موقع محل کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل تصور کیا جاتا ہے۔۔۔ماضی میں اس سرزمین پر جتنی

جنگیں لڑی گئی ہیں۔۔۔۔۔اس کی مثال زمین کے کسی اور خطے پرکہیں نظر نہیں آتی۔۔۔۔زمانہْ ِْْْْ حال میں بھی یہ زمین انسانوں کے خون سے سیراب ہونے کا مزہ چکھتی رہی ہے۔۔۔۔پہلی جنگِ عظیم کے اختتامیہ دنوں میں انگریز جنرل ایلن بی نے بھی ٹھیک اسی جگہ میگوڈو یا مجیدوکے مقام پر ترک فوجوں کے خلاف فتح حاصل کی تھی۔۔اس میدان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جو اس پر قبضہ کرلیتا ہے۔۔وہ ناقابلِ تسخیر بن جاتا ہے۔۔۔۔۔۔یہ میدان مجیدو سے جنوب ایدوم تک دوسومیل کے فاصلے پر پھیلا ہوا ہے۔۔جبکہ مغرب میں اس میدان کی وسعتیں بحر ابیض متوسط سے۔۔۔ مشرق میں موہاب کے ٹیلوں تک سو میل کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہیں۔
۔۔۔۔۔ہرمجدون یا آرماگیڈن کے لفظ سے اہل کتاب بھی بخوبی واقف ہیں۔۔۔امریکہ کے سابق صدررونالڈ ریگن کے الفاظ ہیں۔۔۔۔’’زرا سوچئے!بیس کروڑ سپاہی مشرق سے آئیں گے ۔۔اور کروڑوں سپاہی مغرب کے ہوں گے۔۔۔سلطنت روما کی تجدیدِ نو یعنی مغربی یورپ کے قیام کے بعد۔۔۔۔عیسیٰ ؑ ان لوگوں پر حملہ کریں گے۔۔۔جنہوں نے ان کے شہر یروشلم کو غارت کیا ہے۔۔۔۔اس کے بعد وہ ان فوجوں پر حملہ کریں گے جو میگیڈون یا آرماگیڈن کی وادی میں برسرِ پیکار ہوگی۔۔۔۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یروشلم سے دو سو میل تک اتنا خون بہے گا کہ گھوڑوں کی باگیں تک خون میں ڈوب جائیں گی۔۔۔۔یہ ساری وادی جنگی سامان ، جانوروں اور انسانوں کے جسموں اور خون سے بھرجائے گی۔۔۔۔گو۔۔ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ ایسے غیر انسانی عمل کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔۔۔لیکن اس دن خدا انسانی فطرت کو یہ اجازت دے گا کہ ۔۔وہ اپنے آپ کو پوری طرح ظاہر کردے۔۔۔دنیا کے سارے شہر ۔۔لندن۔۔۔۔پیرس۔۔ٹوکیو۔۔۔۔نیویارک۔۔لاس اینجلز۔۔۔شکاگو۔۔۔سب کے سب صفحہ ہستی سے نابود ہوجائیں گے۔

یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیا کا سارا تماشہ ایک میدانِ جنگ میں سمٹ کر آجائے گا۔۔۔۔۔اور حق و باطل پوری قوت سے ایک دوسرے کے ساتھ برسرِ پیکار ہوں گے۔ ۔۔عظیم ترین قربانیاں دے کر آخر حق کی فتح کا جھنڈا باطل کے سینے پر گھونپ کرلہرایا جائے گا۔۔۔اور زندگی کی کہانی اپنے منطقی انجام تک پہنچ جائے گی۔۔۔قدیم مذہبی صحائف میں اس آخری جنگ کے بارے میں جوتفصیلات موجود ہیں۔۔۔۔۔اس کے تانے بانے دھشت گردی کے خلاف جاری جنگ سے ملائے جائیں تو ۔۔۔۔انسانی زہن ہاں اور نہیں کے درمیان معلق ہوکر رہ جاتا ہے۔لیکن بام ادراک پر یہ سوال سر اٹھاتا ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ اچھائی اور برائی واضح طور پر دو حصوں میں آمنے سامنے آجائیں؟

حق اور باطل کی جنگ تو ابتدائے آفرینش سے ہی جاری ہے۔۔لیکن ایک نہ ایک دن اس جنگ کو اپنے منفقی انجام تک تو پہنچنا ہے۔کیا یہ انجام جنگِ ہرمجدون کے اختتام پر ہوگا؟۔۔۔۔ہرمجدون یا آرماگیڈن کے بارے میں آخر مذہبی صحائف کیا ہماری مدد کرتے ہیں؟

جنگِ ہرمجدون کی تفصیلات اسلام ، عیسائیت اور یہودیت کے ہاں موجود ہیں۔۔۔۔اور یہ سب تفصیلات اس طرف اشارہ کررہی ہیں کہ روئے ارضی پر ایک نہ ایک دن آخری جنگ ہونے والی ہے۔۔۔جو زندگی کے اختتام یا قیامت کے آغاز کا باعث بنے گی۔۔
قرآن پاک کی سورہ محمد ﷺ کا مفہوم ہے۔۔۔’’اب تو یہ لوگ قیامت ہی کو دیکھ رہے ہیں ۔۔۔کہ ناگہاں ان پر آن واقع ہو۔۔اس کی نشانیاں تو آچکی ہیں‘‘
جبکہ ہرمجدون یا ایک آخری و حتمی جنگ کے اشارے ہمیں بیشتر احادیث میں نظر آتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ایک حدیث نبویﷺ ہے ۔۔۔’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔۔۔لوگوں پر وہ وقت آکر رہے گا جب نہ قاتل کو پتہ ہوگا کہ وہ کیوں قتل ہورہا ہے ۔۔۔۔اور نہ مقتول کو علم ہوگا کہ اسے کیوں قتل کیا گیا‘‘
دیکھا جائے تو چند برسوں سے دنیا کے حالات کچھ ایسے ہی ہیں۔۔۔۔تمام تر ثبوت و شواہد کے دعووں کے باوجود جنگیں مفروضوں پر لڑی جارہی ہیں۔۔۔۔نہ مارنے والے کو معلوم ہے کہ وہ کیوں مار رہا ہے۔۔۔نہ مرنے والے کو آگاہی ہے کہ اسے کیوں مارا جارہا ہے۔۔۔عالمِ دنیا ایک عجیب طرح کے خوف زدہ کردینے والے تذبذب کا شکار ہے۔۔۔کیا یہ پیشن گوئی ان ہی حالات کی طرف تو اشارہ نہیں۔۔۔جن حالات سے آج کل ہم گزر رہے ہیں؟۔۔۔۔۔۔خاص طور پر اس وقت امت مسلمہ تاریخ کا بدترین وقت دیکھ رہی ہے۔
ایک حدیث مبارکہ میں ملتا ہے کہ ۔۔۔۔’’تمام قومیں متفقہ طور پر امت مسلمہ پرایسے ٹوٹ پڑیں گی ۔۔۔جیسے کھانے والے ایک پیالے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔‘‘
دیکھا جائے تو آج مسلمانوں پرایسا ہی وقت آیا ہوا ہے۔۔۔۔افغانستان۔۔اعراق۔۔۔پاکستان اور فلسطین کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔۔۔۔جن پر نیٹو اور اسرائیل کی افواج اسی طرح ٹوٹی پڑرہی ہیں جیسے بھوکا کھانے کے برتن پر ٹوٹ پڑتا ہے۔
ایک اور حدیث میں آخری جنگ کی جو پیشن گوئیاں کی گئیں ہیں۔۔وہ آج کے حالات پر بہت حد تک صادر اترتی دکھائی دیتی ہیں۔
’’اللہ کے رسولﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے۔۔قیامت سے پہلے کی چھ نشانیاں گن لو۔۔
۔میرا انتقال۔
بیت المقدس کی فتح
جانوروں جیسی موت جو تم پر ایسے اثر انداز ہوگی جیسے گردن توڑ بیماری اثر انداز ہوتی ہے۔
مال کا پھیلاؤ۔۔یہاں تک کہ ایک آدمی کو سودینار دئیے جائیں گے پھر بھی وہ ناراض ہوگا۔
۔۔پھر ایک فتنہ کھڑا ہوگاجو عربوں کے گھرگھر میں داخل ہوجائے گا۔
پھر تمہارے اور بنو اصفر (یعنی اہل روم) کے درمیان صلح ہوگی۔۔۔پھر وہ بے وفائی کریں گے۔۔اور 80 جھنڈے لے کرتم پر چڑھائی کریں گے۔۔۔۔ہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار کا لشکر ہوگا۔‘‘

یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک عالمی اتحادی جنگ ہوگی ۔۔جس میں مسلمان اور اہل روم (امریکہ اور یورپ) حلیف ہوں گے۔۔۔اور مشترکہ دشمن کے خلاف لڑیں گے۔۔۔اور کامیابی مسلمانوں کے قدم چومے گی۔۔۔۔۔ دیکھا جائے تو روس وار میں دنیا بھر کے مسلمانوں اور امریکہ نے مل کر روس کے خلاف جنگ جیتی تھی۔۔اور عالمی طاقت کو افغانستان چھوڑ بھاگنے پر مجبور کردیا تھا۔۔۔لیکن قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے ۔۔آج کی تاریخ کا سپر پاور پھر اسی میدان میں جنگ کرنے اترگیا ہے۔۔۔جس میدان نے اس سے پہلے کے سپر پاور کا شیرازہ دور دور تک بکھیر کر رکھ دیا تھا۔۔۔سوال تو یہ بھی ہے کہ۔۔کیا افغانستان کو دوبارہ جنگ کا میدان بنا کر صلح کے عہد تو نہیں توڑے گئے؟۔۔۔۔۔۔اورحدیثِ مبارکہ میں جہاں 80 جھنڈوں کی بات کی گئی ہے کیا وہ80 ممالک کی علامت ہے؟۔۔۔اگر ایسا ہے تو کیا مسلم ممالک ایک ہی وقت میں ان ممالک سے مقابلہ کر نے کی طاقت رکھتے ہیں؟
۔۔۔۔اسی طرح ایک اور امید افزا حدیث کے الفاظ ہیں۔
’’پھر تم روم پر حملہ کرو گے ۔۔۔اللہ تمہیں فتح مندکرے گا‘‘
کہا جاتا ہے کہ ہرمجدون یا آرماگیڈن کی جنگ سے لوٹنے کے نو ماہ بعد یہ جنگ لڑی جائے گی۔۔۔جسے الملحمتہ الکبریٰ کہا جاتا ہے۔۔بتایا جاتا ہے کہ یہ جنگ زمین پر لڑی جانے والی سب جنگوں سے زیادہ سخت ہوگی۔

جامعہ الازہرہ کے پروفیسر امین محمد جمال کہتے ہیں کہ اس حدیث میں بنو الاصفر یا اہل روم سے مراد ۔۔امریکہ اور یورپ ہیں۔۔۔اور ان سے مسلمانوں کی صلح قیامت کی علاماتِ صغریٰ کی آخری علامت ہے۔۔۔ان کے مطابق اس جنگ کے بعد ایک بہت بڑی خون ریز جنگ لڑی جائے گی ۔۔۔جسے الملحمتہ الکبریٰ کہتے ہیں۔۔۔۔یہ جنگ اس وقت لڑی جائے گی جب اہل روم عہد شکنی کریں گے۔
مسلمان اور اہل کتاب تجزیہ نگاروں کی فراہم شدہ معلومات کے مطابق ۔۔۔۔۔اس جنگ کے قریبی وقت کی حدبندی کے سلسلہ میں معمولی سا فرق نظر آتا ہے ۔۔۔یہ کوئی نہیں بتا سکتا کہ۔۔یہ جنگ کب ہوگی۔۔۔لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ۔۔۔۔یہ جنگ بہت قریب ہے ۔۔۔۔۔۔لیکن ہمارا سوال پھر یہی ہے کہ ۔۔۔۔کیا یہ جنگ بہت قریب ہے۔۔۔یا دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ ۔۔آرماگیڈن جنگ کی محض تمہید ہے۔!!!!
ؒ اہل کتاب مذاہب ہرمجدون یا آرماگیڈن کی جنگ کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔۔۔ان کے مطابق ہرمجدون یا آرماگیڈن کے میدان میں انسانیت کی آخری اور حتمی جنگ کب لڑی جائے گی؟

انجیل کی سفرالرویا کے باب 16کی آیت نمبر16میں ہے۔
’’سب شیطانی روحیں اور دنیا جہان کی فوج سب کی سب ہرمجدون میں جمع ہونگی۔‘‘
یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ آخری جنگ کا فیصلہ کن معرکہ اسرائیل میں واقع وادیِ ہرمجیدو میں لڑا جائے گا۔۔۔۔لیکن ان دنوں جو جنگ انسانیت پر مسلط ہے وہ تو افغانستان ، اعراق اور پاکستان میں لڑی جاری ہے۔۔۔کیا اس جنگ کی آگ انسانوں کو ہانک کر ہرمجیدو کے میدان میں لے جائے گی؟
تو کیا ان دنوں دنیا میں جو ڈرامائی تبدیلیاں آرہی ہیں خاص کر مسلمان ممالک میں ۔۔کہیں یہ ڈرامائی تبدیلیاں اس جنگ کا پیش خیمہ تو نہیں؟
کہیں لیبیا میں خانہ جنگی برپا کرکے معمر قذافی کو قتل کردیا گیا۔۔کہیں مصر میں سورش برپا کی گئی اور اب شام میں مصنوعی بغاوتیں اٹھائی جارہی ہیں۔۔انہی کے ساتھ ساتھ سعودی عربیہ اور ایران کے تعلقات میں آگ دہکائی جارہی ہے۔۔۔کہیں یہ سب پری اسکرپٹڈ تو نہیں ہورہا؟
کہیں یہ سب آخری جنگ کا پیش خیمہ تو نہیں؟۔۔۔اگر ایسا ہے تو ایسا کون کررہا ہے؟
اسکوفیلڈ ہرمجدون کی جنگ کے بارے میں ایک جگہ کہتے ہیں۔۔۔’’مخلص عیسائیوں پر واجب ہے کہ وہ اس واقعہ کو خوش آمدید کہیں ۔۔کیونکہ ہرمجدون کے آخری معرکے کے شروع ہوتے ہی مسیحؑ ان کو اٹھا کر بادلوں میں لے جائیں گے۔۔۔۔اور وہ بچ جائیں گے۔۔ ان کو ان تکالیف کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جو روئے ارضی پربسنے والوں پرمسلط ہوں گی۔‘‘
ایک عیسائی پادری پیٹ رابرٹسن کہتے ہیں۔۔۔۔ بائبل میں دنیا کے آئندہ حادثات کی صریح شہادتیں موجود ہیں۔۔یہ زمین کو ہلا دینے والی پیش گوئیاں ہیں۔۔۔آخری جنگ عظیم بس ہوا ہی چاہتی ہے۔۔۔یہ حزقیل (Ezakiel) کی تائید میں کسی بھی وقت ہوسکتی ہے۔۔۔آخری امریکہ Ezakielکی راہ میں آگیا ہے۔۔ورنہ ہم بس عین عالم انتظارمیں ہیں۔

عیسائی راہب جمی سواگرٹ کہتا ہے
’’میں چاہتا تھا کہ یہ کہہ سکوں کہ ہماری صلح ہونے والی ہے مگر میں آنے والے ہرمجدون کے معرکے پر ایمان رکھتا ہوں ۔۔بے شک ہرمجدون آکررہے گا۔۔۔وادیِ مجیدو میں گھمسان کا رن پڑے گا۔۔۔وہ آکر رہے گا۔۔۔صلح کے جس معاہدہ پر وہ دستخط کرنا چاہتے ہیں کرلیں ، معاہدہ کبھی پورا نہیں ہوگا۔۔۔۔تاریک دن آنے والے ہیں‘‘
یہاں پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ۔۔۔آخر اتنے حتمی انداز میں کیوں کہا جارہا ہے کہ۔۔معرکہِ ہرمجدون ہونے والا ہے۔۔۔کیا جان بوجھ کر دنیامیں ایسی صورتِ حال پیدا کی جارہی ہے۔۔۔جس سے انسانیت تاریخ کی آخری جنگ لڑنے پر مجبور ہوجائے۔۔۔اور دوسرا سوال یہ زہن میں آتا ہے کہ جمی سواگرٹ کون سے صلح کے معاہدے کی بات کرتا ہے ۔۔۔۔۔کیا اسی صلح کے معاہدے پر جس کی پیشن گوئی حضرت محمدﷺ نے صدیوں پہلے کی تھی؟
اسی طرح پیسٹرکن باؤ۔۔۔۔۔جن کا تعلق میکلین چرچ سے ہے ۔۔۔ کہتے ہیں۔
دنیا کا خاتمہ قریب ہے ۔۔اور حادثے کا وقوع ہماری زندگی ہی میں کسی وقت ہوسکتا ہے۔۔۔۔وہ کہتے ہیں کہ آخری معرکے یعنی آرماگیڈن سے بھی پہلے ہر دو میں سے ایک فرد ہلاک ہوجائے گا۔۔۔یعنی تین ارب آدمی ختم ہوجائیں گے۔
ان عقائد اور پیشن گوئیوں کو سامنے رکھ کرعالمی منظرنامے کو دیکھا جائے تو ۔۔۔۔۔۔دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ۔۔۔۔اور اسرائیل کی فلسطین پر جنگی یلغاریں۔۔۔کیا غیر محسوس طریقے سے آرماگیڈن یا ہرمجدون کے میدان کی طرف جاتی دکھائی نہیں دے رہیں؟
اورل رابرٹسن اور ہال لینڈسے نے ہرمجدون کی جنگ کے بارے میں اپنی مشہور کتابوں میں یہ مفروضے پیش کئے تھے کہ 2000یا اس کے قریب قریب کرہ ارض کا مکمل طور پر خاتمہ ہوجائے گا۔
لیکن ان کی پیشن گوئیوں کے باوجود زندگی تو ابھی بھی اپنے نصیب کی سانسیں لے رہی ہے۔۔۔گو ان سانسوں میں خوف اور بارود کی بو بھی پھیلی ہوئی ہے۔۔اور آنکھوں میں آنے والے دنوں کے بے یقین سائے بھی۔۔خدا جانے اکیسویں صدی کے بارے میں ایسی کتنی ہی پیش گوئیاں کی گئی تھیں لیکن وہ سب کی سب وقت کی دھول میں جھوٹ کے خس و خاشاک کی طرح بکھر گئیں۔
امریکی صدر ریگن نے 1983میں امریکن اسرائیل پبلک افئیرز کمیٹی کے ٹام ڈائن سے بات کرتے ہوئے کہا تھا۔
’’آپ کو علم ہے کہ میں آپ کے قدیم پیغمبروں سے رجوع کرتا رہتا ہوں ۔۔۔جن کا حوالہ قدیم صحیفوں میں موجود ہے۔۔۔اور جن میں آرماگیڈون کے سلسلے میں پیش گوئیاں اور ان کی علامتیں بھی موجود ہیں۔۔۔میں یہ سوچ کر حیران ہوتا ہوں کہ کیا ہم ہی وہ نسل ہیں جو آئندہ حالات دیکھنے کے لئے زندہ ہیں؟۔۔۔۔یقین کیجیے۔۔یہ پیشن گوئیاں اس زمانے کو بیان کررہی ہیں جس ہم جی رہے ہیں۔‘‘
امریکی صدر کو آخر یہ یقین کیوں تھا کہ موجودہ نسل کو ہی دنیا کا اختتامیہ لمحہ دیکھنا ہے۔۔۔صرف یہ ہی نہیں ۔۔۔سابق امریکی صدر ریگن اپنی کتاب victory without warمیں لکھتا ہے ۔۔۔’’1999میں ہمیں پوری دنیا پر مکمل برتری حاصل ہوجائے گی ۔۔اور اس کے بعد عیسیٰؑ کا کام شروع ہوجائے گا‘‘
کیا ایسامحسوس نہیں ہوتا۔۔۔جیسے امریکہ یا امریکی صدر اس بات کا تعین کررہے ہیں کہ 2000سے پہلے پہلے وہ مسیح کی واپسی کے لئے فضا ہموار کر رہے ہیں۔۔۔۔۔لیکن پھر سوال یہ ہے کہ۔۔۔۔۔یہ فضا ابھی تک ہموار کیوں نہیں ہوئی؟۔۔۔یا دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے زریعے کسی مسیحا کے نزول کی راہ ہموار کی جا رہی ہے؟۔۔۔۔۔یا پھر دنیا کو انہونے خوف میں مبتلا کرکے عالمی تسلط قائم کرنے کا خواب دیکھا جا رہا ہے؟
اینادستورس اپنے تحقیقی مقالے ’’سفرِدانیال پر ایک نظر‘‘ میں لکھا ہے کہ
یہودی ایک نجات دہندہ یا الہامی بادشاہ کے منتظر ہیں جس کو وہ مسیحا کا نام دیتے ہیں۔۔جو عالمی سطح پر ان کی قیادت کرے گا۔۔۔یہودیوں نے تو اس مسیحا کے آنے کے وقت کا تعین بھی کرلیا ہے۔۔ان کا خیال ہے کہ قیامِ اسرائیل کے پچاس سال بعد ان کے مسیحا کاظہور ہوگا۔
اینادستورس مزید آگے لکھتا ہے ۔۔۔اسرائیلی حکومت کے ظہور اور مسیحِ دجال کے ظہور کے متعلق رب نے یہ کہہ کر وقت کا واضح تعین کردیا ہے کہ ۔۔’’میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ ایک نسل کے گزرنے سے پہلے یہ سب باتیں ہوجائیں گی۔
جبکہ بعض مسلمان اور نصاریٰ دجال یا Anti christکے الفاظ کا اطلاق اس شخصیت پر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔۔۔ جسے یہودی اپنا نجات دہندہ یا بادشاہ سمجھے ہیں ۔۔۔اور جس کا وہ بری شد ومدسے انتظار کر رہے ہیں۔۔۔ان کا نظریہ یہ ہے کہ دجال ربوبیت کا دعویٰ کرکے ساری دنیا میں تباہی مچادے گا۔
۔۔۔آخررنگ برنگے نظریات و عقائد رکھنے والی تمام قومیں آپس میں دست و گریبان کیسے ہوسکتی ہیں۔۔۔۔آخر اس آخری جنگ میں ایک دوسرے کے حریف کون ہوں گے۔؟

ان دنوں تاریخ کی عجیب و غریب اور تکلیف دہ جنگ انسانیت پر مسلط ہے ۔۔تمام اہل کتاب مذاہب کافی عرصے سے اس امر پردلیلوں اور حوالوں کے ڈھیرلئے بیٹھے ہیں کہ قیامت کا وقت قریب آنے والا ہے۔۔اور آخری جنگ روئے زمین پر برپا ہونے والی ہے۔۔۔۔مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ ایسے ابتلاکے وقتوں میں مہدیؑ اور عیسیٰؑ کا نزول ہوگا۔۔۔جو کافروں سے جنگ کریں گے۔۔۔۔۔اور اس جنگ میں مسلمانو ں کی فتح کا پرچم بلند ہوگا۔ ۔۔۔عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے بیشتر افراد کا عقیدہ ہے کہ ہرمجدون سے پہلے عیسیٰ ؑ کا نزول ہوگا ۔۔۔اور وہ تمام عیسائیوں کو بادلوں پر لے جائیں گے۔۔۔جہاں سے وہ زمین پر برپا ہونے والی جنگوں کا حال اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے اور انہیں اس ہولناک جنگ میں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔۔۔۔اس نظریے کو ماننے والے زیادہ تر اسکوفیلڈ کے مکتبہ فکر کے لوگ ہیں۔
یہودی علماء بھی حضرت دانیال ؑ کی پیشن گوئی کو سامنے رکھ کر یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ ۔۔۔۔ان کا مسیحا بھی اب زمین پر اترنے والا ہے۔۔۔جو ان کی بادشاہت کو دنیا پر نافذ کرے گا۔۔۔جبکہ بیشتر اسلامی اور عیسائی علماء یہودیوں کے مسیحا کو دجال کا نام دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
۔۔۔بے شمار پیشن گوئیوں ، دلیلوں اور حوالہ جات کے باوجود کوئی حتمی دعویٰ نہیں کیا جاسکتاکہ ۔۔۔ہرمجدون یا آرماگیڈن کس وقت رونما ہوگی۔۔۔اور کس کس کے خلاف لڑی جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن یہ ضرور طے ہے کہ۔۔۔۔روئے ارضی پر برپا ہونے والی آخری جنگ۔۔۔۔اصل میں حق اور باطل قوتوں کے درمیان لڑی جائے گی۔۔۔۔اور شدید ترین گھمسان کی جنگ کے بعد ۔۔۔جیت کا تمغہ حق
کے سینے پر سجے گا۔۔۔اب یہ انسانیت کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اس جنگ میں باطل کے ساتھ ہیں یا حق کے ساتھ!!!!!!

Haaarp...!

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ادراک
Haaarp......!!!


Conspiracy theories۔۔۔ دو الفاظ پر مشتمل اس اصطلاح نے دنیا کوسچ اور جھوٹ کے درمیان الجھا یا ہوا ہے۔۔۔ ذرائع ابلاغ جھوٹ کے انبار تلے چھپے کسی بھی سچ کو Conspiracy theories کہہ کر ردکردیں تو عام انسان کے پاس یقین کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں رہتا۔۔۔۔ان دنوں دنیا بھر میں ایسی ہی ایک Conspiracy theory کے تذکرے گونج رہے ہیں جسے Haaarpکہتے ہیں۔
کہا جارہا ہے امریکی سائنسدانوں نے Haaarpنامی ایسی ٹیکنالوجی ایجاد کرلی ہے جس سے موسموں میں مصنوعی تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں۔۔۔ایک مکتبہ فکرکے مطابق گذشتہ دنوں پاکستان میں جو سیلاب آیا تھاوہ قدرتی نہیں تھا۔۔۔بلکہ اس کے پیچھے امریکی ہارپ ٹیکنالوجی تھی۔۔۔اسی طرح آٹھ اکتوبر کے زلزلے اور ان دنوں جاپان میں آنے والے سونامی کے پیچھے بھی اسی ٹیکنالوجی کا نام آرہا ہے۔۔۔۔۔۔کیا واقعی ایسا ہے؟
کیاامریکہ اس قابل ہوگیا ہے کہ موسموں میں اپنی مرضی سے تبدیلی لاسکے؟۔۔یاامریکی جارحیت کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت نے ہارپ ٹیکنالوجی کا یہ ہوا کھڑا کردیا ہے؟
Haaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaarrrrrrrrrpppppppppppp.......!!!!!!!!

دنیا پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کی خواہش میں انسان نے ایسے ایسے ہتھیار تیارکرلئے ہیں کہ اس زمین کوکئی مرتبہ تباہ کیا جاسکتا ہے۔۔ ہارپ ٹیکنالوجی کے بارے میں کہاجارہا ہے کہ اس کے سامنے ایٹم بم بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔۔۔۔یہ ہارپ ٹیکنالوجی آخر ہے کیا؟

طالب ادراک نے اس گتھی کو سلجھانے کے لئے پاکستان میں آنے والے سیلاب کی چھان بین کی

پاکستان میں سیلاب اور ہارپ
سرزمینِ پاکستان میں موسم برسات میں عموماً مون سون کے بادل مشرق سے آتے ہیں اور سردیوں کی بارش کے مون سون مغرب سے، لیکن اس مرتبہ جوپاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب آیا، اس سے پاکستان کی زرعی معیشت زمین بوس ہوگئی اور کروڑوں افراد بے گھر ہوگئے۔ مون سون کے بادل مشرقی سمت کے ساتھ ساتھ مغرب سے بھی آئے اور وزیرستان و شمالی علاقہ جات میں آکر ٹکرا گئے، اب ایسا کیوں ہوا،
کیا یہ اتفاقاً ہوا یامغربی سمت سے مون سون ہوائیں ہارپ ٹیکنالوجی کے ذریعے بھیجی گئیں ؟

پاکستان میں غیر معمولی بارشوں اور ان کے نتیجے میں رونما ہونے والے سیلاب کے اسباب تلاش کرنے والے لوگوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ماحول کو کنٹرول کرنے والی خفیہ امریکی ٹیکنالوجیز پر نظر رکھتے ہیں، امریکی ہارپ ٹیکنالوجی پر حالیہ سیلاب کا الزام عائد کیا جا رہا ہے، یہ وہ ٹیکنالوجی ہے جس کے ذریعے بالائی فضا میں برقی مقناطیسی لہروں کا جال بچھا کر موسم کے لگے بندگے ڈھانچے کو تہس نہس کر دیا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں موسلادھار بارشیں ہوتی ہیں، سیلاب آتے ہیں اور برفباری بڑھ جاتی ہے، اسی ٹیکنالوگی کو انجینئرڈ زلزلوں اور سمندری طوفانوں کی پشت پر کارفرما بتایا جاتا ہے،

ایک مکتبہ فکر کا کہنا ہے کہ اس سیلاب سے پاکستان کوداخلی اور خارجی طور پر پرمزید کمزورکیا جارہا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیلاب کے وقت امریکہ کے 20 ہیلی کوپٹر اور 700 فوجی بھی امدادی کاروا یوں میں مصروف تھے۔۔۔۔بام ادراک پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا واقعی امریکی فوجی پاکستان میں امدادی کاموں میں مصروف تھے یا اس امداد کے پیچھے کوئی اور کہانی سانس لے رہی تھی؟
کیا امریکی کسی بڑے آپریشن سے پہلے ریکی کررہے تھے یا پاکستان کے سنگلاخ پہاڑوں اور چٹیل میدانوں کا جایزہ لے رہے ہیں کہ ایٹمی پروگرام کا درست اور صحیح محل وقوع معلوم کرسکیں۔

مظفرآباد میں آنے والا زلزلہ اور ہارپ
جب ہارپ ٹیکنالوجی کا پینڈورا باکس کھلا تو پاکستان میں 2005ء میں آنے والے زلزلے کے بارے میں بھی یہ کہاجانے لگا کہ یہ زلزلہ بھی زمینی پلیٹوں میں تبدیلی کرکے لایا گیا ہے۔
2005کے زلزلے میں بھی امریکہ نے امداد کے ساتھ ساتھ امدادی کاروایوں کے لیے اپاچی اور کوبرا ہیلی کوپٹر بھیجے تھے یہ ہیلی کوپٹر دو ماہ تک اسلام آباد سے لیکر گلگت اور بالاکوٹ اور مظفر آباد تک پروازیں کرتے رہے۔ان ہیلی کوپٹرز نے شمالی علاقوں کا کونہ کونہ چھان مارا۔ سوات سے لیکر پشاور تک اور لاہور سے اسلام آباد تک بلاخوف و خطر دندناتے پھرتے نظر آتے ہیں یہاں تک کہ چترال اور کالام کے بعض پسماندہ ترین علاقوں سے بھی کچھ امریکیوں کو کو گرفتار کیا گیا جو ادھر ملک دشمن سرگرمیوں میں مصروف کار تھے۔اس کے علاوہ اس زلزلے میں درجنوں امریکی امدادی ٹیمیں این جی اوز کی شکل میں کام کرتی رہیں اور ساتھ ساتھ امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کے لیے بھی کام کرتی ہیں
جاپان سونامی اور ہارپ
حالیہ دنوں جاپان کے زلزلہ اور سونامی پر جو کہ 11 مارچ 2011ء کو درپیش ہوا کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ بھی مصنوعی ہے۔
اور دنیا یہ کہتی دکھائی دیتی ہے کہ یہ دوسرا ایٹم بم ہے جو جاپان پر گرا ہے۔۔۔۔۔اتفاقات، واقعات اورتاریخی شواہدکے تانے بانے ملانے والے کہتے ہیں کہ جاپان میں سونامی کے پیچھے امریکن ہارپ ٹیکنالوجی کا ہاتھ ہے۔۔۔۔اگر ایساہے تو جاپان میں تباہی لاکر امریکہ اپنے کون سے مزموم مقاصد پورے کرنا چاہتا ہے؟
(اسکالر۔۔اگر جاپان میں آنے والے سونامی میں امریکہ کا ہاتھ ہے تو وہ اس سے کون سے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے؟)

جاپان ڈالر اور نئی کرنسی
یہ خبر منظر عام پر آرہی ہے کہ جاپان کئی ممالک کے ساتھ مل کر یہ کوشش کررہا تھا کہ ’’ڈالرز‘‘ کو لین دین کی کرنسی کے طور پر ختم کرکے ایک نئی کرنسی کو جنم دیا جائے اس سلسلے میں جاپان کے شہنشاہ کی چین کے صدر سے تین مرتبہ ملاقات بھی ہوچکی ہے۔ NibiraTV کی خبر کے مطابق جاپان کے سابق وزیر خزانہ ہیزل ٹاکاناکا کو یہ دھمکی دی گئی تھی کہ وہ اپنا مالی نظام امریکہ کے حوالے کردے ورنہ اس پر زلزلہ سے حملہ کردیا جائے گا۔ اگر یہ خبر صحیح ہے تو پھر امریکہ کے عزائم تو یہی ہیں کہ دْنیا میں وہ اپنی بالادستی قائم رکھے گا اور کسی اور طاقت یا طاقتوں کے گروپ کو اپنی بالادستی کو چیلنج کرنے نہیں دے گا۔
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ سائنسی نقطہ نظر سے ہارپ کی اصل حقیقت کیا ہے۔۔۔اور موسموں میں تبدیلی لانے کا امریکی خواب کتنا پرانا ہے؟

موسموں میں تبدیلی کے ابتدائی شواہد
امریکی اخبار ’’نیویارک ٹائمز‘‘ میں ایک اسٹوری 8 دسمبر 1915ء میں شائع ہوئی۔جس میں امریکہ کے سائنسدان نیکولا ٹیسلا کے سائنسی تھیوری ٹیکنالوجی اور ایجادات کے بارے میں شائع ہوئی اور دوسری اسٹوری بھی ’’نیویارک ٹائمز‘‘ میں ہی مگر کوئی 25 سال بعد یعنی 22 ستمبر 1940ء کو شائع ہوئی۔ اس وقت اِس امریکی سائنسدان کی عمر 80 برس تھی، اس اسٹوری میں اس سائنسدان نے یہ نظریہ پیش کیا کہ
موسم میں ایسے تغیرات لا ئے جا سکتے ہیں جو بارش برسا سکتے ہیں اور زلزلہ لاسکتے ہیں
کسی جہاز کے انجن کو کسی خاص مقام سے 250 کلومیٹر پہلے ہی ایک چھوٹی سی شعاع سے پگھلا یا جا سکتا ہے
کسی خاص ملک خطہ یا علاقے کے گرد شعاعوں کا دیوار چین جیسا حصار قائم کیا جاسکتا ہے۔

بیشتر امریکی سائنسدانوں نے اس نظریہ کو یہ کہہ کر مشہور نہیں ہونے دیا کہ اْن کے نظریہ کو قبول کرلیا جائے تو کرۂ ارض کو توڑکررکھ دے گا۔لیکن بعد میں یہ بھی سنا گیا کہ امریکی حکومت نے موسموں میں تبدیلی لانے کے نظریہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے پینٹاگون کو ذمہ داری سونپ دی۔

پینٹاگون اور ہارپ ٹیکنالوجی
کئی محققین کا دعویٰ ہے کہ پینٹاگون نے الاسکا سے 200 میل دور ایک انتہائی طاقتور ٹرانسمیٹر نصب کیاہے۔اس 23 سے 35 ایکڑ رقبے پر 180 ٹاورز ہیں۔۔۔جن پر 72 میٹر لمبے انٹینا نصب کئے گئے ہیں۔ جس کے ذریعہ تین بلین واٹ طاقت کی ( Electromagnetic Wave) ) 2.5۔10 میگا ہرٹز کی فریکوئنسی سے چھوڑی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ امریکن اسٹار وارز اور موسمی تغیرات پیدا کرنے کیلئے ایک کم مگر طے شدہ کرۂ ارض کی فضائی تہوں میں الاسکا کے اس اسٹیشن سے تبدیلی کی داغ بیل ڈالی جاسکتی ہے ۔جو کئی سو میلوں کی قطر میں موسمی اصلاح کرسکتی ہے۔۔۔اور یہ تبدیلی دنیا کے کسی بھی مقام پر لائی جاسکتی ہے۔

امریکہ میں کسی بھی ایجاد کو رجسٹر کرانا ضروری ہے اور اس میں اْس کا مقصد اور اْس کی تشریح کرنا ضروری ہے چنانچہ HARRP کا پنٹنٹ نمبر 4,686,605 ہے۔ اس کے تنقید نگار نے اس کا نام جلتی ہوئی شعاعی بندوق رکھا ہے۔ اِس پنٹنٹ کے مطابق یہ ایسا طریقہ اور آلہ ہے جو کرۂ ارض کے کسی خطہ میں موسمیاتی تغیر پیدا کردے اور ایسے جدید میزائل اور جہازوں کو روک دے یا اْن کا راستہ بدل دے، کسی کے بھی مواصلاتی نظام میں مداخلت کرے یا اپنا نظام مسلط کردے۔ دوسروں کے انٹیلی جنس سگنل کو قابو میں کرے اور میزائل یا ایئر کرافٹ کو تباہ کردے۔ راستہ موڑ دے یا اس کو غیر موثر کردے یا کسی جہاز کو اونچائی پر لے جائے یا نیچے لے آئے۔

ہارپ کا طریقہ اس پنٹنٹ میں یہ لکھا ہے کہ ایک یا زیادہ ذرات کا مرغولہ بنا کر بالائی کرہ ارض کے قرینہ یا سانچے (Pattern) میں ڈال دیا جائے تو اس سے موسم میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ اس کو موسمی اصلاح کا نام دیا گیا۔ پنٹنٹ کے مطابق موسم میں شدت لانا یا تیزی یا گھٹنا، مصنوعی حدت پیدا کرنا، اس طرح بالائی کرۂ ارض میں تبدیلی لا کر طوفانی سانچہ یا سورج کی شعاعوں کو جذب کرنے کے قرینے کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح زمین کے کسی خطہ پر انتہائی سورج کی روشنی، حدت کو ڈالا جاسکتا ہے۔

ہارپ پر ایک کتاب \"Angles Don\'t play this Haarp\" جو دو سائنسدانوں JEANE MANNING اور Dr. NICK BEGICHنے لکھی ہے ، ان کے مطابق کرۂ ارض کا اوپری قدرتی نظام جو سورج کی روشنی کا اسطرح بندوبست کرتا ہے کہ اْس کو انسان دوست رکھنے کے لئے نقصان دہ شعاؤں کو جذب کر لیتا ہے، لیکن ہارپ کا مقصد Ionosphere کواپنی مرض کے مطابق چلانا ہے، اس کو Ionospheric Heater کا نام بھی دیا گیا ہے۔ اسکے ذریعہ مصنوئی حدت یا اس میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے۔

موسموں میں مصنوعی تغیر لانے کے بارے میں اس وقت اولیں خبر منظر عام پر آئی جب1958میں وہائٹ ہاؤس کے موسم کی اصلاح کے چیف ایڈوائزر کیپٹن ہوورڈ ٹی اور ویلی نے لب کشائی کی۔۔۔۔ان کے بقول امریکہ کرۂ ارض کے موسم کو ہیرپھیر کے ذریعہ متاثر کرنے پر تجربات کررہا ہے۔ اسی طرح 1986ء میں پروفیسر گورڈن جے ایف میکڈونلڈ نے ایک مقالہ لکھا کہ امریکہ ماحولیات کنٹرول ٹیکنالوجی کو ملٹری مقاصد کے حصول کے لئے تجربات کر رہا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی جغرافیائی جنگوں میں کام آئے گی اور قلیل مقدار کی انرجی سے ماحول کو غیر مستحکم کر دے گا۔

امریکی خلائی جہازX37B، ہارپ اور تباہی
ہارپ ٹیکنالوجی کے بارے میں ایک اور کونسپیرسی تھیوری یہ بھی منظر عام پر آرہی ہے کہ جب بھی امریکی خلائی جہاز X37B کو خلا میں بھیجا جاتا ہے دْنیا میں کہیں نہ کہیں قدرتی آفات آجاتی ہیں۔ 22 اپریل 2010ء کو یہ جہاز 9 ماہ کے لئے خلیج فارس، افغانستان، پاکستان اور آبنائے کوریا کی جاسوسی اور ضرورت پڑنے پر کسی جگہ حملہ کرنے کے لئے خلاء میں لانچ کیا گیا۔ 26 جولائی 2010ء کو پاکستان میں غیرمعمولی مون سون مغرب اور مشرق سے اور اپنے ساتھ بے پناہ تباہی لے کر آئیں۔ پاکستان کا 43 بلین سے نقصان ہوا، اموات دو ہزار سے اوپر تھیں اور تقریباً پاکستان کا پانچ واں حصہ پانی میں ڈوب گیا تھا مگر خیر یہ ہوئی کہ پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام اس وقت بھی محفوظ رہا اور 2005ء4 کے زلزلہ میں بھی محفوظ رہا۔

خلائی جہازX37B، جاپان اور سونامی
جاپان کے زلزلہ اور سونامی پر جو کہ 11 مارچ 2011ء کوپیش آیا کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ بھی مصنوعی ہے اور۔ امریکہ خلائی جہاز X37B پانچ مارچ 2011ء کو خلاء میں چھوڑا گیا، اْس کے ٹھیک 6 روز بعد یہ حادثہ رونما ہوا، اس سے جاپان کے تین ایٹمی ری ایکٹرز متاثر ہوگئے ہیں اور اْن سے تابکاری اثرات خارج ہونا شروع ہوگیا ہے۔ اس پر انگلیاں امریکہ کی طرف ہی اٹھتی نظر آئی ہے
(اسکالر۔۔امریکی خلائی جہازx37Bکو خلا میں چھوڑا گیا تو اس کے ٹھیک چھ روز بعد جاپان میں سونامی آیا۔۔کئی افراداس سونامی اور خلائی جہاز کے تانے بانے ملاتے دکھائی دیتے ہیں۔۔اس کی اصل حقیقت کیا ہے۔۔)
؂۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امریکہ دنیا پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لئے اور کون کون سے تجربات کر رہا ہے؟
امریکہ کی رعونت، دہشت گردی ، بے وفائی اور دنیا سے بے اعتبائی یوں ہی نہیں ہے، اس کے پیچھے اْس کی وہ سائنسی طاقت ہے جس میں ایٹم بم ایک حقیر ہتھیار ہو کر رہ گیا ہے۔ اس کے سائنسداں ہمہ وقت تباہ کن ایجادات میں مشغول ہیں۔ان تجربات میں
موسموں کا ہیرپھیر،
آب و ہوا کی اصلاح،
قطب جنوبی و قطب شمالی کے برف کو بڑی مقدار میں پگھلانا یا پگھلنے کو روکنا
اوزون کی تہوں کو تراشنا،
سمندر لہروں کو قابو کرنا،
دماغی شعاعوں کو قبضہ کرنا،
دو سیاروں کی انرجی فیلڈ پر کام ہورہا ہے۔
اسی وجہ سے 1970ء4 میں بززنسکی نے غلط نہیں کہا تھا کہ وہ دنیا کے طاقت کے محور کو امریکہ لے گئے ہیں اور اب کبھی یورو ایشیا میں نہیں آنے دیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ زیادہ قابومیں رہنے والی اور ہدایت کے مطابق چلنے والی سوسائٹی ، امریکی ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے ابھرے گی اور معاشرہ یا اس کرہ ارض کے لوگ اْن لوگوں کے حکم پر چلیں گے جو زیادہ سائنسی علم رکھتے ہوں گے۔ یہ عالم لوگ روایتی اور منافقانہ یا بے تعصبی سے قطع نظر اپنے جدید ترین تکنالوجی کو سیاسی عزائم کے حصول کے لئے بروئے کار لانے سے گریز نہیں کریں اور عوامی عادتوں اور معاشرہ کو کڑی نگرانی اور قابو میں رکھنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے جس صورت پر کام کیا جارہا ہوگا اس پر تکنیکی اور سائنسی معیار اور مقدار متحرک کی جائے گی۔ ان کی یہ پیش گوئی آج صحیح ثابت ہورہی ہے۔۔اور اب خدا جانے امریکہ کے پینڈورا باکس میں اور کون کون سی تباہ کن ایجادات پر کام ہورہا ہے۔

کئی دور اندیش محققین کا خیال ہے کہ ہارپ امریکی فوج کا ایک ایسا پروگرام ہے جو کہ 2022
تک تمام دنیا میں امریکی تصرف کو یقینی بنانے کے لیئے استعمال کیا جاسکے۔۔۔یعنی موسموں ، انسانوں اور مواصلات پر قابو پاکر ہر شخص کو اپنے حصار میں قید کرلینا۔۔۔۔اس پروگرام کو کوئی نیوورلڈ آرڈر کہتا ہے اور کوئی ورلڈ نیو!!


امریکہ گو کہ ان دنوں وار آن ٹیرر لڑتا دکھائی دیتا ہے۔۔۔لیکن لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والے امریکہ کو آج دنیا سب سے بڑا دہشت گرد کہہ رہی ہے۔۔۔امن کا دعویٰ کرنے والے امریکہ نے ساری دنیا کو جنگ کا اکھاڑا بنایا ہوا ہے ۔۔۔دنیا کا سب سے پہلا ایٹم بم بھی امریکہ نے بنایا تھا۔۔۔اور کسی ملک کے خلاف امریکہ نے ہی ایٹم بم کاجنونی استعمال کیا تھا۔۔۔امریکہ دنیا پر اپنا تسلط قائم رکھنے کے لئے کسی بھی سطح پر جاسکتا ہے۔۔اسی لئے وہ نت نئے سائنسی تجربات کررہا ہے۔۔۔ایسے تجربات جو انسانیت کے لئے شدید ترین خطرہ ہیں۔۔۔ہیروشیما اور ناگاہ ساکی پر ایٹم بم بھی جنونی پاگلوں کے ہاتھوں میں تھے۔۔۔اورآج بھی موسمی تغیر پیداکرنے والی ایجادات کے مہرے شیطانی ہاتھوں میں ہیں۔۔۔یہ ساری دنیا کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
گر خدا نہ ہوتو دنیا کس قدر برباد ہو
پاگلوں کے ہاتھ میں ہیں سب مشینوں کے بٹن

ادراک

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان ، نہایت رحم والا ہے
ادراک

دعا


صدیوں کے نشیب و فراز سے گزر کر آیا ہواانسان کہیں اپنی جستجو کے بلند و بالا مینار بناتا دکھائی دیتا ہے۔۔تو کہیں حالات کی آندھیوں ، طوفانوں اور سیلابوں سے گھبرا کردست دعا بلند کرتا نظر آتا ہے۔۔۔۔آخر اس دعا میں ایسی کون سی تاثیر چھپی ہوئی ہے جو مشکل ترین حالات میں بھی حضرت انسان کو مایوس ہونے نہیں دیتی !!!۔۔۔۔۔کیا دعا محض انسان کی نفسیاتی تسلی کا نام ہے؟؟؟۔۔۔۔یادل مضطرب سے نکلی ہوئی دعا تقدیر تک کو بدل دیتی ہے؟


کامیابی کی دوڑ میں زندگی کی سڑک پر بھاگتے ہوئے کردار۔۔۔۔۔خواہش کے بازار میں دکانوں کو تکتے ، اٹکتے ، جھجھکتے اور سسکتے ہوئے انسان ۔۔۔۔۔۔۔مجبوریوں ، معذوریوں ، تمناؤں اور ضرورت کا بوجھ لادھے رینگتے، ڈگمگاتے ، گھبراتے ہوئے خاک کے پتلے۔۔۔ جب قانون فطرت کے آگے ہارنے لگتے ہیں تو دست دعا بلند ہوجاتے ہیں۔۔۔۔کہیں اجتماعی دعاؤں کے غول فضاء میں گردش کرتے ہیں تو کہیں تنہائی میں خالی ہتھیلیاں آسمان کی جانب اٹھ جاتی ہیں۔۔۔اور کہیں انسان کو محرومیاں اورمجبوریاں مزاروں کی چوکھٹ پر لے جاتی ہیں۔
دعاکی تاثیر میں چھپے اسرار ہمارے قدموں کو اولیاء اللہ اور مزاروں کی سرزمین ملتان لے گئی۔۔۔۔۔شہرِ ملتان کی پرپیچ اور قدیم گلیوں میں ایک گھر میں شہزاد احمد کا بھی ہے۔۔۔جو اپنی بیوی سعدیہ اوربیٹی لبنیٰ کے ساتھ خوشیوں کا سفر طے کررہا ہے۔۔۔۔شادی کے کئی برس گزرجانے کے باوجود یہ گھرانہ اولاد کی نعمت سے محروم تھا۔۔۔۔۔ایسے میں کسی نے انہیں بابا شاہ رکن عالم کے مزار پر دعا کرنے کا مشورہ دیا۔۔۔۔۔اور جب ان کے دست دعا اس مزار پر جاکر بلند ہوئے تو کچھ عرصہ بعد ہی ان کے گھر میں اولاد کا پھول کھل گیا۔۔۔۔اب یہ خاندان اپنی بیٹی سمیت یہاں حاضری دینے آتا ہے۔
اسی مزار پرہماری ملاقات ایک ایسی بوڑھی عورت ’’جیواں‘‘ سے ہوئی جو کسی اور ہی دنیا میں رہتی ہے۔۔۔۔۔کوئی اسے مجذوب کہتا ہے۔۔۔کوئی مائی کہتا ہے تو کوئی ملنگ کا نام دیتا ہے۔۔۔۔جیواں کا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔۔۔۔اس کے دن رات اس مزار پر آنے والے کرداروں کے درمیان گزرتے ہیں۔۔۔۔اور اس کا عقیدہ ہے کہ یہاں اسے بابا شاہ رکن عالم نے خود بلایا ہے۔۔۔اور وہ اس سے محبت کرتے ہیں۔۔۔۔۔اس مزار پر آنے والے اکثر کردار ’’جیواں‘‘ سے دعا کی درخواست کرتے ہیں۔۔۔اور جیواں نے عالم وجد میں دعاؤں کے پرندوں کو عالم بالا میں پہنچانے کا فریضہ سنبھالا ہوا ہے۔

کیا انسان اتنا کمزور اور بے بس ہے کہ اپنی دعا کی قبولیت کے لئے اسے مقدس ہاتھوں اور ہونٹوں کی ضرورت پیش آتی ہے؟؟۔۔۔یا عقیدوں کی بھول بھلیوں میں بھٹکتا ہوا انسان خالق اور مخلوق کے درمیان رابطے کی سیڑھیاں ڈھونڈتا پھر رہا ہے؟

اسے زندگی کا تضاد کہیے یا حسن۔۔۔۔کہیں انسان کی کمزوریاں اسے وسیلے ڈھونڈنے پر مجبور کر دیتی ہیں تو کہیں انسان کا اعتماد براہ راست عرش کے دروازے پر دستک دینے لگتا ہے۔
دعا کی کھوج کا یہ سفر طالبِ ادراک کو ملتان کی قدیم گلیوں سے کھینچتا ہوا زندہ دلان لاہور تک لایا تووہاں دعا کا ایک الگ مفہوم ہمارا انتظار کررہا تھا۔
شاہ نواز صاحب لاہور کے ایک پوش علاقے میں اپنی شریک حیات۔۔۔اپنی بیٹی اور نواسے کے ہمراہ آسودگی سے لبریز زندگی گزار رہے ہیں۔۔۔اس خاندان کا نظریہ دعا وسیلوں کی قطار وشمار سے الگ دکھائی دیتا ہے۔

کہیں خالق کائنات کے سامنے جھولی پھیلائی جاتی ہے۔۔ کہیں ماضی کے مزاروں پردست دعا بلند ہوتے ہیں۔۔۔اورکہیں پتھروں کے سامنے سرجھکائے جاتے ہیں۔۔۔۔ایسے میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ اشرف المخلوقات کہلانے والے انسان نے ترقی کی منازل اپنی جستجو سے طے کی ہیں یا ان کامیابیوں کے پیچھے اصل ہاتھ مضطرب دلوں سے اٹھنے والی دعاؤں کا ہے؟

کیا دعا کرنے سے کوئی ایسانادیدہ نظام رواں ہوجاتا ہے جہاں جستجو کا کوئی دخل نہیں۔۔۔۔اس سوال کی کھوج سے پہلے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ دعا اصل میں ہے کیا؟

دعا ہے کیا؟؟؟
دعا عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی التجااور پکار کے ہیں لیکن مذہبی مفہوم میں دعا سے مراد خالق کائنات سے کوئی فریاد کرنا یا کچھ طلب کرنا ہے۔۔۔۔اس کے علاوہ مخصوص آیات کے ورد کو بھی دعا شمار کیا جاتا ہے۔۔۔۔اور کسی شخصیت کے لئے نیک تمنا اور بھلائی کے اظہار کو بھی دعا کے زمرے میں شامل کیا جاتا ہے۔
اہل اسلام میں اللہ سے دعا مانگنا عبادت میں شامل ہے ۔۔۔اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں کئی دعائیں انسانوں کو بتائی ہیں کہ ان الفاظ میں یا اس طریقے سے دعا مانگنی چاہیے۔۔۔۔اسی طرح بعض پیغمبروں نے بھی جو اللہ سے دعائیں کی ہیں وہ بھی قرآن حکیم میں موجود ہیں ۔۔۔قرآن مجید کی سورہ فاتحہ کے بارے میں مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ یہ دعا اتنی عظیم ہے کہ اس میں ہر وہ دعا شامل ہے جو ہمارے دل و دماغ میں آسکتی ہے۔۔۔جیسے سورہ فاتحہ نے اپنے دامن میں ساری کائنات کو سمیٹ لیا ہو!!!!

۔۔ رحمت العالمین حضرت محمد ﷺ نے انسانیت کی بھلائی کے لئے بعض مواقع پر دعائیں مانگی ہیں جو احادیث مبارکہ میں درج ہیں۔۔۔ان دعاؤں پر غور کیا جائے تویہ دعائیں زندگی گزارنے کا ایک Complete Packageدکھائی دیتی ہیں۔

دل چسپ حقیقتیں اس وقت مسافران علم و ادراک کی دست بوسی کرتی ہیں جب قدیم اور دیگر الہامی کتب میں درج دعائیں نگاہوں کو خیرہ کردیتی ہیں۔


زبانوں کے اختلاف کو الگ رکھ کر دیکھا جائے توتقریباً تمام مذاہب کی کتابوں میں جو دعائیں اور حمدموجود ہیں ان کے بنیادی معنی اور مفہوم میں ایک عجیب سی مماثلت دکھائی دیتی ہے۔۔۔جیسے خالق کائنات کی تعریف کو مسلمان حمد کہتے ہیں۔۔۔ہندو آرتی کا نام دیتے ہیں۔۔۔۔۔بدھشٹ وندناکہتے ہیں۔۔۔۔پارسی یاسنا اور یہودی سالم کہتے ہیں۔

عام طور پر یہودی اور عیسائی اپنی دعاکے اول اور آخر میں ہللویاہ (Hallelujah)پکارتے دکھائی دیتے ہیں۔۔Halleluکا مطلب ہے دعا کرو۔۔۔اور ’’یاہ‘‘ لفظ یہواہ کا مخفف ہے۔۔یہواہ کا لفظ یہودی خدا کے لئے استعمال کرتے ہیں۔۔۔اس طرح ہللویاہ (Hallelujah)کا مطلب ہوا خدا کی حمد کرو۔۔۔۔عربی میں اس کا ترجمہ’’ الحمد اللہ‘‘ ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔اسی طرح ہندی زبان میں استعمال ہونے والا لفظ ’’ہری اوم‘‘ یا ’’ہرے اوم‘‘کے لغوی معنی بھی خدا کی تعریف کے ہیں۔۔۔۔لفظ ’’اوم‘‘ سنسکرت زبان کا ہے۔۔۔جس کے معنی ہیں ایسا نور یا ایسی ہستی جو کائنات کی وسعتوں میں پھیلی ہوئی ہے۔۔۔۔۔یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کے تمام مذاہب میں خالق کائنات سے دعا اور حمد صدیوں سے پڑھی جارہی ہیں ۔۔۔فرق صرف زبان کا ہے


ہندو مذہب کی دعا اوم جے جگدیش ہرے میں بھی دعائیں موجود ہیں ۔۔۔اورگائتری منتر میں بھی۔۔۔۔راکھو پتی راگھو۔۔۔ہو یا گیتا گیت خدائے واحد و یکتا کی دعائیں اور حمد ہر جگہ دکھائی دیتی ہیں۔۔۔۔۔مذاہب عالم کی مقدس کتابوں کی ورق گردانی سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ دعا صرف خالقِ کائنات سے مانگی جاتی ہے۔۔۔اور اس دعا میں خالق کائنات کی تعریف کے بعد اپنا مدعا اور حاجت بیان کی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔لیکن یہاں یہ سوال سر اٹھاتا ہے کہ پھر ہر کسی کی دعا قبول کیوں نہیں ہوتی ۔۔۔۔ایک انسان آسائشات، سہولیات اور لذتوں کی انتہاؤں پر پہنچا ہوا ہے ۔۔۔اور دوسرے انسان کے ماتھے پر دکھوں ، پریشانیوں ، غموں اور محرومیوں کی طویل داستانیں کیوں رقم ہیں؟

دعا کس کی قبول نہیں ہوتی؟
علماء کرام اور صوفیاء کہتے ہیں دعا کے لئے اضطراب اور یقین بنیادی شرط ہے۔۔یعنی اضطراب وہ قوت ہے جو دعا کو باب قبولیت تک پہنچاتا ہے۔۔۔۔قرآن مجید کی سورہ نمل کی آیت 62میں ہے۔
ترجمہ:(ہمارے سوا) وہ کون ہے جو بے قرار کی پکار کا جواب دے۔ (سورۃ النمل 62)
بے قراری اور اضطراب دعا کے وہ نادیدہ پر ہیں جو اسے عرش کی وسعتوں تک پہنچا دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔لیکن ہمارے مشاہدے میں یہ بھی آتا ہے کہ کئی کردارتڑپتے ہوئے بھی دعا مانگتے ہیں تو ان کی دعا قبولیت کی دہلیز پر پہنچ نہیں پاتی ۔۔اس کی کیا وجہ ہے؟

لیکن اکثر دیکھنے میں یہ بھی آتا ہے کہ ایک آدمی برائی سے بھی بچنے کی کوشش کرتا ہے ۔۔حرام بھی نہیں کھاتا ، انسانیت کے کام بھی آتا ہے پھر بھی اس کی دعا قبول کیوں نہیں ہوتی؟
علماء اس بارے میں کہتے ہیں کہ دعاکی تین حالتیں ہوتی ہیں۔۔۔ایک وہ دعا جو فوراً قبول ہوجاتی ہے۔۔دوسری وہ دعا جو برے وقت پر کام آنے کے لئے بچا لی جاتی ہے۔۔۔اور تیسرے وہ دعا جو آخرت میں انسان کے کام آتی ہے

فلاسفہ کہتے ہیں کہ دنیا مکافات عمل کا نام ہے ۔۔۔یعنی جو عمل کرو گے اسی کا نتیجہ ملے گا۔۔۔ایسے میں دعا کو کیا معنی دئیے جائیں؟
جب ہر عمل کا ایک نتیجہ نکلتا ہے تو دعا کرنا بھی ایک عمل ہے۔۔آخر اس عمل سے نتیجہ کس طریقے سے برآمد ہوتا ہے؟

دعا کیسے قبول ہوتی ہے؟
ماہرین روحانیت کے ہاں ہر حرف کا ایک خاص رنگ اور ایک مخصوص قوت ہوتی ہے۔۔۔غیب بینی کا دعویٰ کرنے والوں یعنی Clairvoyantsنے چند حروف کو لکھ کر انہیں وجدان کی آنکھ سے دیکھا تو انہیں ’’الف ‘‘کا رنگ سرخ دکھائی دیا۔۔۔’’ب ‘‘کا نیلا ۔۔۔’’د‘‘ کا سبز اور ’’س‘‘ کا رنگ زرد نظر آیا۔۔۔پھر ان حروف کے اثرات کا جائزہ لیا تو بعض الفاظ کے پڑھنے سے بیماریاں جاتی رہیں۔۔۔۔۔علماء کہتے ہیں کہ انبیاء اور اولیاء کی روحانی قوت بہت زیادہ ہوتی ہے اور ان کے کلمات میں حیرت انگیز تاثیر اور قوت پائی جاتی ہے۔اتنی طاقت کہ ان سے خطرناک بیماریاں تک دور ہوجاتی ہیں۔

علماء کرام کہتے ہیں الہامی صحائف کا ہر لفظ قوت کا ایک خزانہ ہوتا ہے۔۔۔۔۔یعنی الہامی الفاظ Highly energisedہوتے ہیں۔۔۔۔تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم اپنی دعا میں الہامی الفاظ کا استعمال کریں تو وہ فوراً قبول ہوجائیں؟

کیا الہامی الفاظ میں کوئی قوت پوشیدہ ہے؟

روحانی علماء کہتے کہیں کہ الہامی الفاظ اور اسمائے الہٰی میں اتنی طاقت ہے کہ ان کے ورد سے ہماری پریشانیاں اور بیماریاں دور ہوجاتی ہیں۔۔۔مسلمان اس لحاظ سے بھی زیادہ خوش ہیں کہ ان کے پاس اللہ کے ننانوے صفاتی نام موجود ہیں۔۔جیسے رحیم، کریم ، غفور، خبیر!!!
ان اسمائے الہیہ کو مسلمان حسب حاجت پکارتے ہیں۔۔۔لیکن یہ سہولت دیگر مذاہب میں موجود نہیں ہے۔۔ہندوؤں کے پاس صرف لفظ ’’اوم‘‘ ہے۔۔۔۔عیسائیوں کے پاس ’’GOD‘‘ ہے۔

الہامی اسماء کی تاثیر اصل حروف میں ہوتی ہے۔۔۔اگر کسی اسم کا ترجمہ کردیا جائے تو وہ بات نہیں رہتی اور اثر بدل جاتا ہے۔۔۔جو طاقت ’’یا رحیم ‘‘ میں ہے وہ ’’یا مہربان ‘‘ میں نہیں ہے۔

۔۔۔یہاں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ گویا دعا کی قبولیت الفاظ کی قوت میں چھپی ہوئی ہے۔۔۔۔آخر ان الفاظ میں ایسا کیا ہے جو دعا کو قبولیت کی دھلیز تک پہنچا دیتے ہیں؟

الفاظ کی اصل طاقت کیا ہے؟
دراصل ہر لفظ ایک یونٹ یا ایٹم ہے۔۔۔جسے انسان کے اندرونی جذبات کی بجلیاں چارچ کردیتی ہیں۔۔اور اس کے اثرات اس عالم خاکی اور عالم لطیف (کاسمک ورلڈ یا آسٹرل ورلڈ) دونوں میں نمودار ہوتے ہیں ۔۔۔۔الفاظ کی قوت کی ایک معمولی سی مثال ’’گالی ‘‘ ہے۔۔۔۔۔گالی کسی تلوار یا توپ کا نام نہیں ۔۔بلکہ یہ چند حروف کا مجموعہ ہے۔۔۔۔لیکن منہ سے نکلتے ہی مخاطب کے تن بدن میں آگ لگا دیتی ہے۔۔۔یہ آگ کہاں سے آتی ہے؟۔۔۔الفاظ کے اسی مجموعے سے!!!!

الفاظ کی قوت کی کئی مثالیں ہمارے معاشرے میں ہمیں دکھائی دیتی ہیں۔۔۔۔مثلاً کسی بے ہمت اور تھکی ہاری فوج کے سامنے کوئی آتش بیاں جرنیل اپنی تقریر میں ہرسپاہی کے رگ و ریشے میں ایسی آگ بھر دیتا ہے جوموت کے سیلابوں اور طوفانوں سے بھی نہیں بجھ سکتی۔
لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر الفاظ میں یہ طاقت کہاں سے آتی ہے ۔۔۔اور اس کا اثر کس طرح ہوتا ہے۔۔۔۔اس سوال کے جواب میں روحانی علماء امواج اثیر کا نام لیتے ہیں۔۔ امواج اثیر یا کا سمک وائبریشن کو سمجھنے سے پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ عالم اثیر یا کا سمک ورلڈ ہے کیا؟

کا سمک ورلڈ، آسٹرل ورلڈ یا عالم اثیر!!!!
روحانی مفکرین کے چند مکتبہ فکر ایسے ہیں جو اس دنیا جس میں ہم جی رہے ہیں کے علاوہ ایک ایسی دنیا کا زکر کرتے دکھائی دیتے ہیں جسے کوئی کا سمک ورلڈ، کوئی ایتھر، کوئی آسٹرل ورلڈ، کوئی اثیری دنیا تو کوئی عالم مثال کہتا ہے۔

روحانی علماء کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ اس دنیا میں ہم جو اچھا برا کرتے ہیں اس کا براہ راست اثر اس کا سمک ورلڈ میں پیدا ہوتا ہے۔۔۔اور اس اثر کے رد عمل میں جو کچھ کا سمک ورلڈ سے زمین کی طرف آتا ہے اسے ہم مکافاتِ عمل کہتے ہیں۔

ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ روحیں اسی دنیا سے ہماری دنیا میں آتی ہیں اور اپنی مدت پوری کرنے کے بعد اسی دنیا میں واپس چلی جاتی ہیں۔۔۔۔ان کے مطابق جن اور فرشتے بھی اسی اثیری دنیا میں رہتے ہیں۔۔۔اس کا سمک ورلڈ کے تین طبقے بتائے جاتے ہیں ۔۔۔سب سے نچلے طبقے میں گنہ گار کردار اپنے اعمال کی پاداش میں سزا کاٹ رہے ہیں۔۔۔۔دوسرے طبقے میں متوسط درجے کے اچھے لوگ آباد ہیں۔۔۔۔۔اور تیسرے یعنی سب سے اونچے طبقے میں بہترین کردار موجود ہیں۔۔۔ان میں اولیاء، فلاسفہ اور انبیاء کرام موجود ہیں۔۔۔۔۔اس عالم مثال یا کا سمک ورلڈ میں کوئی بھی مادی وجود نہیں رکھتا۔۔۔بلکہ یہاں جو کچھ ہے وہ اجسام لطیفہ یعنی روشنی کی شکل میں موجود ہیں۔

بعض روحانی مفکرین یہاں تک بھی کہتے سنائی دیتے ہیں کہ کا سمک ورلڈ میں ساری کائنات کی اصل موجود ہے۔۔۔اور جس دنیا میں ہم جی رہے ہیں اس دنیا میں محض ہمارے عکس موجود ہیں۔

لیکن یہاں یہ سوال ابھرتا ہے کہ آیا ایسی کوئی اثیری دنیا موجود ہے یا یہ محض انسان کی تخیل پروازی ہے؟

روحانی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری زمین اور کا سمک ورلڈ کا باہمی رابطہ ان لہروں یا وائبریشنز سے ہوتا ہے جو ہمارے اعمال کا رد عمل ہوتی ہیں۔

امواج اثیر کیا ہیں؟

سائنسدانوں کا ایک گروہ اور روحانیت کا ایک مکتبہ فکر ’’ایتھر‘‘ کا زکر کرتا دکھائی دیتا ہے۔۔۔یہ ایتھر ایک انتہائی حساس چیز ہے۔۔جس میں ایک مدہم سی آواز سے بھی وہاں ہیجان پیدا ہوجاتا ہے۔۔ان کے مطابق ہمارے دعا کرنے سے عالم اثیر یا کا سمک ورلڈ میں اضطراب پیدا ہوجاتا ہے۔۔۔جب ہم کسی مصیبت یا رنج میں مبتلا ہوکر نیاز و گداز میں ڈوب کردست دعا بلند کرتے ہیں توہمارے اندرونی جذبات کی قوت یا ایموشنل اینرجی کا سمک ورلڈ میں شدید لہریں پیدا کرتی ہے ۔۔یہ لہریں مفید اور فیض رساں طاقتوں سے ٹکراتی ہیں۔۔۔یہ فیض رساں طاقتیں یا تو خود ہر رکاوٹ کو عبور کرتے ہوئے ہماری مدد کو پہنچتی ہیں۔۔۔یاخیال کی کوئی ایسی لہر ہمارے دماغ تک پہنچاتی ہیں جو ہمارے دماغ سے ٹکرا کر ایک ایسی تجویز کی شکل اختیار کرلیتی ہے جس پر عمل پیرا ہونے سے ہماری تکلیف دور ہوجاتی ہے۔

کیا دعا اور قبولیت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں؟

ایک یورپی مفکر لیڈ بیٹر اپنی کتاب The Masters and the pathکے صفحہ231میں لکھتا ہے۔
’’گداز اور اضطراب میں ڈوبی ہر آواز کا جواب ضرور آتا ہے۔۔اگر ایسا نہ ہوتو لوگ کائنات کو مردہ سمجھنے لگیں۔۔۔دعا اور قبولیت ایک سکے کے دو رخ ہیں۔قبولیت اسی طرح دعا کا دوسرا رخ ہے جس طرح نتیجہ سبب کا‘‘
لیکن یہاں ادراک کی چوکھٹ پر ایک اور سوال سراٹھاتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں جو ہر طرف مایوسی ، افراتفری اور خون کی ہولیاں کھیلی جارہی ہیں۔۔۔تو دعاؤں کے اثر سے یہ سب کچھ بہترکیوں نہیں ہوجاتا؟۔۔۔کیا دعاؤں سے اس ملک میں امن و سکون نافذ ہوسکتا ہے؟
عبادت گاہوں میں لوگ گڑگڑا گڑگڑا کر دعائیں مانگتے دکھائی دیتے ہیں۔۔۔۔۔کچھ ہیں جو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے دعا مانگتے ہیں۔۔اور کچھ ایسے کرداررٹے ہوئے جملوں کو دہراتے نظر آتے ہیں۔۔۔ایسے میں انسان کس طرح یہ فیصلہ کرے کہ دعاکے لئے بنیادی شرط کیا ہے؟

دعا کے لئے بنیادی شرط کیا ہے؟

علماء کرام کا کہنا ہے دعا کے لئے بنیادی شرط ایمان و یقین ہے۔۔۔۔اگر سچے دل سے اخلاص کے ساتھ دعا مانگی جائے گی تو مایوسی کے اندھیروں میں دعا کی روشنی اجالا بکھیر دے گی۔
یہ دعا ہی تو ہے جو ٹوٹے ہوئے جذبوں اور حوصلہ کو پھر سے یکجا کرتی ہے۔۔۔۔یہ دعا ہی تو ہے جو بدترین حالات میں بھی جینے کی امید دلاتی ہے۔۔۔۔یہ دعا ہی تو ہے جو مخلوق کو خالق کے قریب لے آتی ہے۔۔۔یہ دعا دراصل مخلوق کی خالق سے گفتگو ہے۔
قرآن مجید کی سورۃ البقرہ کی آیت 186میں اللہ رب العزت اپنے اور بندے کے تعلق اور دعا کے متعلق فرماتے ہیں۔

ترجمہ: اور (اے پیغمبرﷺ) جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو (کہہ دو کہ )میں تو (تمہارے) پاس ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں، تو ان کو چاہیے کہ میرے حکموں کو مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ نیک راستہ پائیں۔ سورۃ البقرہ ۔186
دعا خالق اور بندے کے درمیان تعلق کی انتہائی شکل ہے۔۔۔۔دعا قرب کا وہ معاملہ ہے جس میں انسان اور خدا کے درمیان تکلف کا کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔
جب مخلوق اور خالق کا تعلق استوار ہوجائے تو دعائیں زبان تک پہنچنے سے قبل ہی شرف قبولیت حاصل کرلیتی ہیں۔