Sunday 16 March 2014

Filled Under:

Harmajadooon

04:05


بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان ، نہایت رحم والا ہے

Intro
سانحہ 9/11کے بعد دنیا اچانک جنگ کا میدان بن کر رہ گئی۔۔۔دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی یہ جنگ افغانستان، اعراق اور اب پاکستان کے شمالی علاقوں تک پھیل گئی ہے۔۔۔کیا یہ جنگ اس عالمی اور آخری جنگ کی ابتدائی کڑی تو نہیں ۔۔۔جس جنگ کے ہونے پر تمام اہل کتاب مذاہب متفق ہیں؟

دنیا کے تمام مذاہب اس امر پر متفق ہیں کہ ۔۔۔انسانیت ایک آخری ہولناک جنگ کی لپیٹ میں کبھی بھی آسکتی ہے۔۔۔۔جسے کوئی Armageddon، کوئی الملحمتہ العظمیٰ اور کوئی ہرمجدون کا نام دیتاہے۔۔۔ اس وقت دھشت گردی کے خلاف جو جنگ لڑی جاری ہے۔۔۔کیا یہ ہی Armageddon یا انسانیت کی آخری جنگ ہے؟


سانحہ 9/11کے بعد دنیا اچانک ہی خوفناک تباہی کے حصار میں پھنس گئی ہے۔۔۔۔امن کا گہوارا کہلانے والی زمین ان دنوں جنگ کے شعلوں میں جل رہی ہے۔۔دنیا کے ہرملک کا ہرشہری کسی نہ کسی طرح اس جنگ سے متاثر ہورہا ہے۔۔حیرت کی بات یہ ہے کہ جس دشمن سے بیسیوں ممالک مل کر جنگ لڑرہے ہیں۔۔وہ کہیں دکھائی ہی نہیں دیتا۔۔۔اس دشمن کے ہونے میں جتنے ابہام ہیں۔۔۔اتنی ہی اس کے نہ ہونے کے حق میں دلیلیں موجود ہیں۔۔۔اس دشمن کی تلاش میں جنگ کا دائرہ کسی بھی ملک کی سرحدوں تک پھیل جانا معمول کی بات ہے۔۔۔۔۔۔ان دنوں دنیاکے سروں پر بے یقینی کا ایسا خوف منڈلا رہا ہے جو انہیں مارتا بھی نہیں۔۔اور زندہ بھی رہنے نہیں دیتا۔۔۔۔۔۔۔۔بیشترمذہبی مکاتب فکر تشویش بھرے لہجے میں یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی عالمی جنگ اس جنگ کی طرف اشارہ کررہی ہے۔۔۔جسے آرماگیڈن یا ہرمجدون کہا جاتا ہے۔۔۔اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ۔۔۔یہ جنگ اس زمین پر لڑی جانے والی آخری جنگ ہوگی۔۔۔۔اور اس کے بعد زمین کے سینے پر سجایا گیا زندگی کا کھیل ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سمیٹ لیا جائے گا۔


Nostradamus نے اپنی کتاب کے ایک باب ۔۔۔۔۔وقت کی کھڑکی ۔۔۔۔۔میں علامتی انداز میں کہا تھا۔۔۔ دوپرندے بلندترین عمارتوں سے ٹکرائیں گے۔۔۔۔اور یہ ہی واقعہ پہلے عالمی جنگ اور پھر قیامت کا پیش خیمہ بن جائے گا۔۔۔۔۔کیاNostradamusکی پیش گوئیاں اس قابل ہیں کہ ان پر اعتبار کیا جائے؟

آرماگیڈن یا ہرمجدون کے کیامعنی ہیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔وہ کون سا میدان ہوگا۔۔۔جو اس جنگ عظیم کا بار سہنے کی ہمت رکھتا ہے۔۔۔۔۔آخر اس میں ایسا کیا ہوگا کہ۔۔۔۔ یہ جنگ انسانی زندگی کے انجام کا۔۔۔ آغاز بن جائے گی!!!

ہرمجدون عبرانی زبان کا لفظ ہے۔۔۔جو دو مقطعوں سے مل کر بنا ہے۔۔۔۔عبرانی زبان میں ’’ہر‘‘ پہاڑ کو کہتے ہیں۔۔۔اور’’ مجیدو‘‘ فلسطین کی ایک وادی کا نام ہے۔

ہرمجیدو کا خطہ زمین اسٹریٹیجیکل موقع محل کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل تصور کیا جاتا ہے۔۔۔ماضی میں اس سرزمین پر جتنی

جنگیں لڑی گئی ہیں۔۔۔۔۔اس کی مثال زمین کے کسی اور خطے پرکہیں نظر نہیں آتی۔۔۔۔زمانہْ ِْْْْ حال میں بھی یہ زمین انسانوں کے خون سے سیراب ہونے کا مزہ چکھتی رہی ہے۔۔۔۔پہلی جنگِ عظیم کے اختتامیہ دنوں میں انگریز جنرل ایلن بی نے بھی ٹھیک اسی جگہ میگوڈو یا مجیدوکے مقام پر ترک فوجوں کے خلاف فتح حاصل کی تھی۔۔اس میدان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جو اس پر قبضہ کرلیتا ہے۔۔وہ ناقابلِ تسخیر بن جاتا ہے۔۔۔۔۔۔یہ میدان مجیدو سے جنوب ایدوم تک دوسومیل کے فاصلے پر پھیلا ہوا ہے۔۔جبکہ مغرب میں اس میدان کی وسعتیں بحر ابیض متوسط سے۔۔۔ مشرق میں موہاب کے ٹیلوں تک سو میل کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہیں۔
۔۔۔۔۔ہرمجدون یا آرماگیڈن کے لفظ سے اہل کتاب بھی بخوبی واقف ہیں۔۔۔امریکہ کے سابق صدررونالڈ ریگن کے الفاظ ہیں۔۔۔۔’’زرا سوچئے!بیس کروڑ سپاہی مشرق سے آئیں گے ۔۔اور کروڑوں سپاہی مغرب کے ہوں گے۔۔۔سلطنت روما کی تجدیدِ نو یعنی مغربی یورپ کے قیام کے بعد۔۔۔۔عیسیٰ ؑ ان لوگوں پر حملہ کریں گے۔۔۔جنہوں نے ان کے شہر یروشلم کو غارت کیا ہے۔۔۔۔اس کے بعد وہ ان فوجوں پر حملہ کریں گے جو میگیڈون یا آرماگیڈن کی وادی میں برسرِ پیکار ہوگی۔۔۔۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یروشلم سے دو سو میل تک اتنا خون بہے گا کہ گھوڑوں کی باگیں تک خون میں ڈوب جائیں گی۔۔۔۔یہ ساری وادی جنگی سامان ، جانوروں اور انسانوں کے جسموں اور خون سے بھرجائے گی۔۔۔۔گو۔۔ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ ایسے غیر انسانی عمل کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔۔۔لیکن اس دن خدا انسانی فطرت کو یہ اجازت دے گا کہ ۔۔وہ اپنے آپ کو پوری طرح ظاہر کردے۔۔۔دنیا کے سارے شہر ۔۔لندن۔۔۔۔پیرس۔۔ٹوکیو۔۔۔۔نیویارک۔۔لاس اینجلز۔۔۔شکاگو۔۔۔سب کے سب صفحہ ہستی سے نابود ہوجائیں گے۔

یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیا کا سارا تماشہ ایک میدانِ جنگ میں سمٹ کر آجائے گا۔۔۔۔۔اور حق و باطل پوری قوت سے ایک دوسرے کے ساتھ برسرِ پیکار ہوں گے۔ ۔۔عظیم ترین قربانیاں دے کر آخر حق کی فتح کا جھنڈا باطل کے سینے پر گھونپ کرلہرایا جائے گا۔۔۔اور زندگی کی کہانی اپنے منطقی انجام تک پہنچ جائے گی۔۔۔قدیم مذہبی صحائف میں اس آخری جنگ کے بارے میں جوتفصیلات موجود ہیں۔۔۔۔۔اس کے تانے بانے دھشت گردی کے خلاف جاری جنگ سے ملائے جائیں تو ۔۔۔۔انسانی زہن ہاں اور نہیں کے درمیان معلق ہوکر رہ جاتا ہے۔لیکن بام ادراک پر یہ سوال سر اٹھاتا ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ اچھائی اور برائی واضح طور پر دو حصوں میں آمنے سامنے آجائیں؟

حق اور باطل کی جنگ تو ابتدائے آفرینش سے ہی جاری ہے۔۔لیکن ایک نہ ایک دن اس جنگ کو اپنے منفقی انجام تک تو پہنچنا ہے۔کیا یہ انجام جنگِ ہرمجدون کے اختتام پر ہوگا؟۔۔۔۔ہرمجدون یا آرماگیڈن کے بارے میں آخر مذہبی صحائف کیا ہماری مدد کرتے ہیں؟

جنگِ ہرمجدون کی تفصیلات اسلام ، عیسائیت اور یہودیت کے ہاں موجود ہیں۔۔۔۔اور یہ سب تفصیلات اس طرف اشارہ کررہی ہیں کہ روئے ارضی پر ایک نہ ایک دن آخری جنگ ہونے والی ہے۔۔۔جو زندگی کے اختتام یا قیامت کے آغاز کا باعث بنے گی۔۔
قرآن پاک کی سورہ محمد ﷺ کا مفہوم ہے۔۔۔’’اب تو یہ لوگ قیامت ہی کو دیکھ رہے ہیں ۔۔۔کہ ناگہاں ان پر آن واقع ہو۔۔اس کی نشانیاں تو آچکی ہیں‘‘
جبکہ ہرمجدون یا ایک آخری و حتمی جنگ کے اشارے ہمیں بیشتر احادیث میں نظر آتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ایک حدیث نبویﷺ ہے ۔۔۔’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔۔۔لوگوں پر وہ وقت آکر رہے گا جب نہ قاتل کو پتہ ہوگا کہ وہ کیوں قتل ہورہا ہے ۔۔۔۔اور نہ مقتول کو علم ہوگا کہ اسے کیوں قتل کیا گیا‘‘
دیکھا جائے تو چند برسوں سے دنیا کے حالات کچھ ایسے ہی ہیں۔۔۔۔تمام تر ثبوت و شواہد کے دعووں کے باوجود جنگیں مفروضوں پر لڑی جارہی ہیں۔۔۔۔نہ مارنے والے کو معلوم ہے کہ وہ کیوں مار رہا ہے۔۔۔نہ مرنے والے کو آگاہی ہے کہ اسے کیوں مارا جارہا ہے۔۔۔عالمِ دنیا ایک عجیب طرح کے خوف زدہ کردینے والے تذبذب کا شکار ہے۔۔۔کیا یہ پیشن گوئی ان ہی حالات کی طرف تو اشارہ نہیں۔۔۔جن حالات سے آج کل ہم گزر رہے ہیں؟۔۔۔۔۔۔خاص طور پر اس وقت امت مسلمہ تاریخ کا بدترین وقت دیکھ رہی ہے۔
ایک حدیث مبارکہ میں ملتا ہے کہ ۔۔۔۔’’تمام قومیں متفقہ طور پر امت مسلمہ پرایسے ٹوٹ پڑیں گی ۔۔۔جیسے کھانے والے ایک پیالے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔‘‘
دیکھا جائے تو آج مسلمانوں پرایسا ہی وقت آیا ہوا ہے۔۔۔۔افغانستان۔۔اعراق۔۔۔پاکستان اور فلسطین کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔۔۔۔جن پر نیٹو اور اسرائیل کی افواج اسی طرح ٹوٹی پڑرہی ہیں جیسے بھوکا کھانے کے برتن پر ٹوٹ پڑتا ہے۔
ایک اور حدیث میں آخری جنگ کی جو پیشن گوئیاں کی گئیں ہیں۔۔وہ آج کے حالات پر بہت حد تک صادر اترتی دکھائی دیتی ہیں۔
’’اللہ کے رسولﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے۔۔قیامت سے پہلے کی چھ نشانیاں گن لو۔۔
۔میرا انتقال۔
بیت المقدس کی فتح
جانوروں جیسی موت جو تم پر ایسے اثر انداز ہوگی جیسے گردن توڑ بیماری اثر انداز ہوتی ہے۔
مال کا پھیلاؤ۔۔یہاں تک کہ ایک آدمی کو سودینار دئیے جائیں گے پھر بھی وہ ناراض ہوگا۔
۔۔پھر ایک فتنہ کھڑا ہوگاجو عربوں کے گھرگھر میں داخل ہوجائے گا۔
پھر تمہارے اور بنو اصفر (یعنی اہل روم) کے درمیان صلح ہوگی۔۔۔پھر وہ بے وفائی کریں گے۔۔اور 80 جھنڈے لے کرتم پر چڑھائی کریں گے۔۔۔۔ہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار کا لشکر ہوگا۔‘‘

یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک عالمی اتحادی جنگ ہوگی ۔۔جس میں مسلمان اور اہل روم (امریکہ اور یورپ) حلیف ہوں گے۔۔۔اور مشترکہ دشمن کے خلاف لڑیں گے۔۔۔اور کامیابی مسلمانوں کے قدم چومے گی۔۔۔۔۔ دیکھا جائے تو روس وار میں دنیا بھر کے مسلمانوں اور امریکہ نے مل کر روس کے خلاف جنگ جیتی تھی۔۔اور عالمی طاقت کو افغانستان چھوڑ بھاگنے پر مجبور کردیا تھا۔۔۔لیکن قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے ۔۔آج کی تاریخ کا سپر پاور پھر اسی میدان میں جنگ کرنے اترگیا ہے۔۔۔جس میدان نے اس سے پہلے کے سپر پاور کا شیرازہ دور دور تک بکھیر کر رکھ دیا تھا۔۔۔سوال تو یہ بھی ہے کہ۔۔کیا افغانستان کو دوبارہ جنگ کا میدان بنا کر صلح کے عہد تو نہیں توڑے گئے؟۔۔۔۔۔۔اورحدیثِ مبارکہ میں جہاں 80 جھنڈوں کی بات کی گئی ہے کیا وہ80 ممالک کی علامت ہے؟۔۔۔اگر ایسا ہے تو کیا مسلم ممالک ایک ہی وقت میں ان ممالک سے مقابلہ کر نے کی طاقت رکھتے ہیں؟
۔۔۔۔اسی طرح ایک اور امید افزا حدیث کے الفاظ ہیں۔
’’پھر تم روم پر حملہ کرو گے ۔۔۔اللہ تمہیں فتح مندکرے گا‘‘
کہا جاتا ہے کہ ہرمجدون یا آرماگیڈن کی جنگ سے لوٹنے کے نو ماہ بعد یہ جنگ لڑی جائے گی۔۔۔جسے الملحمتہ الکبریٰ کہا جاتا ہے۔۔بتایا جاتا ہے کہ یہ جنگ زمین پر لڑی جانے والی سب جنگوں سے زیادہ سخت ہوگی۔

جامعہ الازہرہ کے پروفیسر امین محمد جمال کہتے ہیں کہ اس حدیث میں بنو الاصفر یا اہل روم سے مراد ۔۔امریکہ اور یورپ ہیں۔۔۔اور ان سے مسلمانوں کی صلح قیامت کی علاماتِ صغریٰ کی آخری علامت ہے۔۔۔ان کے مطابق اس جنگ کے بعد ایک بہت بڑی خون ریز جنگ لڑی جائے گی ۔۔۔جسے الملحمتہ الکبریٰ کہتے ہیں۔۔۔۔یہ جنگ اس وقت لڑی جائے گی جب اہل روم عہد شکنی کریں گے۔
مسلمان اور اہل کتاب تجزیہ نگاروں کی فراہم شدہ معلومات کے مطابق ۔۔۔۔۔اس جنگ کے قریبی وقت کی حدبندی کے سلسلہ میں معمولی سا فرق نظر آتا ہے ۔۔۔یہ کوئی نہیں بتا سکتا کہ۔۔یہ جنگ کب ہوگی۔۔۔لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ۔۔۔۔یہ جنگ بہت قریب ہے ۔۔۔۔۔۔لیکن ہمارا سوال پھر یہی ہے کہ ۔۔۔۔کیا یہ جنگ بہت قریب ہے۔۔۔یا دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ ۔۔آرماگیڈن جنگ کی محض تمہید ہے۔!!!!
ؒ اہل کتاب مذاہب ہرمجدون یا آرماگیڈن کی جنگ کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔۔۔ان کے مطابق ہرمجدون یا آرماگیڈن کے میدان میں انسانیت کی آخری اور حتمی جنگ کب لڑی جائے گی؟

انجیل کی سفرالرویا کے باب 16کی آیت نمبر16میں ہے۔
’’سب شیطانی روحیں اور دنیا جہان کی فوج سب کی سب ہرمجدون میں جمع ہونگی۔‘‘
یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ آخری جنگ کا فیصلہ کن معرکہ اسرائیل میں واقع وادیِ ہرمجیدو میں لڑا جائے گا۔۔۔۔لیکن ان دنوں جو جنگ انسانیت پر مسلط ہے وہ تو افغانستان ، اعراق اور پاکستان میں لڑی جاری ہے۔۔۔کیا اس جنگ کی آگ انسانوں کو ہانک کر ہرمجیدو کے میدان میں لے جائے گی؟
تو کیا ان دنوں دنیا میں جو ڈرامائی تبدیلیاں آرہی ہیں خاص کر مسلمان ممالک میں ۔۔کہیں یہ ڈرامائی تبدیلیاں اس جنگ کا پیش خیمہ تو نہیں؟
کہیں لیبیا میں خانہ جنگی برپا کرکے معمر قذافی کو قتل کردیا گیا۔۔کہیں مصر میں سورش برپا کی گئی اور اب شام میں مصنوعی بغاوتیں اٹھائی جارہی ہیں۔۔انہی کے ساتھ ساتھ سعودی عربیہ اور ایران کے تعلقات میں آگ دہکائی جارہی ہے۔۔۔کہیں یہ سب پری اسکرپٹڈ تو نہیں ہورہا؟
کہیں یہ سب آخری جنگ کا پیش خیمہ تو نہیں؟۔۔۔اگر ایسا ہے تو ایسا کون کررہا ہے؟
اسکوفیلڈ ہرمجدون کی جنگ کے بارے میں ایک جگہ کہتے ہیں۔۔۔’’مخلص عیسائیوں پر واجب ہے کہ وہ اس واقعہ کو خوش آمدید کہیں ۔۔کیونکہ ہرمجدون کے آخری معرکے کے شروع ہوتے ہی مسیحؑ ان کو اٹھا کر بادلوں میں لے جائیں گے۔۔۔۔اور وہ بچ جائیں گے۔۔ ان کو ان تکالیف کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جو روئے ارضی پربسنے والوں پرمسلط ہوں گی۔‘‘
ایک عیسائی پادری پیٹ رابرٹسن کہتے ہیں۔۔۔۔ بائبل میں دنیا کے آئندہ حادثات کی صریح شہادتیں موجود ہیں۔۔یہ زمین کو ہلا دینے والی پیش گوئیاں ہیں۔۔۔آخری جنگ عظیم بس ہوا ہی چاہتی ہے۔۔۔یہ حزقیل (Ezakiel) کی تائید میں کسی بھی وقت ہوسکتی ہے۔۔۔آخری امریکہ Ezakielکی راہ میں آگیا ہے۔۔ورنہ ہم بس عین عالم انتظارمیں ہیں۔

عیسائی راہب جمی سواگرٹ کہتا ہے
’’میں چاہتا تھا کہ یہ کہہ سکوں کہ ہماری صلح ہونے والی ہے مگر میں آنے والے ہرمجدون کے معرکے پر ایمان رکھتا ہوں ۔۔بے شک ہرمجدون آکررہے گا۔۔۔وادیِ مجیدو میں گھمسان کا رن پڑے گا۔۔۔وہ آکر رہے گا۔۔۔صلح کے جس معاہدہ پر وہ دستخط کرنا چاہتے ہیں کرلیں ، معاہدہ کبھی پورا نہیں ہوگا۔۔۔۔تاریک دن آنے والے ہیں‘‘
یہاں پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ۔۔۔آخر اتنے حتمی انداز میں کیوں کہا جارہا ہے کہ۔۔معرکہِ ہرمجدون ہونے والا ہے۔۔۔کیا جان بوجھ کر دنیامیں ایسی صورتِ حال پیدا کی جارہی ہے۔۔۔جس سے انسانیت تاریخ کی آخری جنگ لڑنے پر مجبور ہوجائے۔۔۔اور دوسرا سوال یہ زہن میں آتا ہے کہ جمی سواگرٹ کون سے صلح کے معاہدے کی بات کرتا ہے ۔۔۔۔۔کیا اسی صلح کے معاہدے پر جس کی پیشن گوئی حضرت محمدﷺ نے صدیوں پہلے کی تھی؟
اسی طرح پیسٹرکن باؤ۔۔۔۔۔جن کا تعلق میکلین چرچ سے ہے ۔۔۔ کہتے ہیں۔
دنیا کا خاتمہ قریب ہے ۔۔اور حادثے کا وقوع ہماری زندگی ہی میں کسی وقت ہوسکتا ہے۔۔۔۔وہ کہتے ہیں کہ آخری معرکے یعنی آرماگیڈن سے بھی پہلے ہر دو میں سے ایک فرد ہلاک ہوجائے گا۔۔۔یعنی تین ارب آدمی ختم ہوجائیں گے۔
ان عقائد اور پیشن گوئیوں کو سامنے رکھ کرعالمی منظرنامے کو دیکھا جائے تو ۔۔۔۔۔۔دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ۔۔۔۔اور اسرائیل کی فلسطین پر جنگی یلغاریں۔۔۔کیا غیر محسوس طریقے سے آرماگیڈن یا ہرمجدون کے میدان کی طرف جاتی دکھائی نہیں دے رہیں؟
اورل رابرٹسن اور ہال لینڈسے نے ہرمجدون کی جنگ کے بارے میں اپنی مشہور کتابوں میں یہ مفروضے پیش کئے تھے کہ 2000یا اس کے قریب قریب کرہ ارض کا مکمل طور پر خاتمہ ہوجائے گا۔
لیکن ان کی پیشن گوئیوں کے باوجود زندگی تو ابھی بھی اپنے نصیب کی سانسیں لے رہی ہے۔۔۔گو ان سانسوں میں خوف اور بارود کی بو بھی پھیلی ہوئی ہے۔۔اور آنکھوں میں آنے والے دنوں کے بے یقین سائے بھی۔۔خدا جانے اکیسویں صدی کے بارے میں ایسی کتنی ہی پیش گوئیاں کی گئی تھیں لیکن وہ سب کی سب وقت کی دھول میں جھوٹ کے خس و خاشاک کی طرح بکھر گئیں۔
امریکی صدر ریگن نے 1983میں امریکن اسرائیل پبلک افئیرز کمیٹی کے ٹام ڈائن سے بات کرتے ہوئے کہا تھا۔
’’آپ کو علم ہے کہ میں آپ کے قدیم پیغمبروں سے رجوع کرتا رہتا ہوں ۔۔۔جن کا حوالہ قدیم صحیفوں میں موجود ہے۔۔۔اور جن میں آرماگیڈون کے سلسلے میں پیش گوئیاں اور ان کی علامتیں بھی موجود ہیں۔۔۔میں یہ سوچ کر حیران ہوتا ہوں کہ کیا ہم ہی وہ نسل ہیں جو آئندہ حالات دیکھنے کے لئے زندہ ہیں؟۔۔۔۔یقین کیجیے۔۔یہ پیشن گوئیاں اس زمانے کو بیان کررہی ہیں جس ہم جی رہے ہیں۔‘‘
امریکی صدر کو آخر یہ یقین کیوں تھا کہ موجودہ نسل کو ہی دنیا کا اختتامیہ لمحہ دیکھنا ہے۔۔۔صرف یہ ہی نہیں ۔۔۔سابق امریکی صدر ریگن اپنی کتاب victory without warمیں لکھتا ہے ۔۔۔’’1999میں ہمیں پوری دنیا پر مکمل برتری حاصل ہوجائے گی ۔۔اور اس کے بعد عیسیٰؑ کا کام شروع ہوجائے گا‘‘
کیا ایسامحسوس نہیں ہوتا۔۔۔جیسے امریکہ یا امریکی صدر اس بات کا تعین کررہے ہیں کہ 2000سے پہلے پہلے وہ مسیح کی واپسی کے لئے فضا ہموار کر رہے ہیں۔۔۔۔۔لیکن پھر سوال یہ ہے کہ۔۔۔۔۔یہ فضا ابھی تک ہموار کیوں نہیں ہوئی؟۔۔۔یا دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے زریعے کسی مسیحا کے نزول کی راہ ہموار کی جا رہی ہے؟۔۔۔۔۔یا پھر دنیا کو انہونے خوف میں مبتلا کرکے عالمی تسلط قائم کرنے کا خواب دیکھا جا رہا ہے؟
اینادستورس اپنے تحقیقی مقالے ’’سفرِدانیال پر ایک نظر‘‘ میں لکھا ہے کہ
یہودی ایک نجات دہندہ یا الہامی بادشاہ کے منتظر ہیں جس کو وہ مسیحا کا نام دیتے ہیں۔۔جو عالمی سطح پر ان کی قیادت کرے گا۔۔۔یہودیوں نے تو اس مسیحا کے آنے کے وقت کا تعین بھی کرلیا ہے۔۔ان کا خیال ہے کہ قیامِ اسرائیل کے پچاس سال بعد ان کے مسیحا کاظہور ہوگا۔
اینادستورس مزید آگے لکھتا ہے ۔۔۔اسرائیلی حکومت کے ظہور اور مسیحِ دجال کے ظہور کے متعلق رب نے یہ کہہ کر وقت کا واضح تعین کردیا ہے کہ ۔۔’’میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ ایک نسل کے گزرنے سے پہلے یہ سب باتیں ہوجائیں گی۔
جبکہ بعض مسلمان اور نصاریٰ دجال یا Anti christکے الفاظ کا اطلاق اس شخصیت پر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔۔۔ جسے یہودی اپنا نجات دہندہ یا بادشاہ سمجھے ہیں ۔۔۔اور جس کا وہ بری شد ومدسے انتظار کر رہے ہیں۔۔۔ان کا نظریہ یہ ہے کہ دجال ربوبیت کا دعویٰ کرکے ساری دنیا میں تباہی مچادے گا۔
۔۔۔آخررنگ برنگے نظریات و عقائد رکھنے والی تمام قومیں آپس میں دست و گریبان کیسے ہوسکتی ہیں۔۔۔۔آخر اس آخری جنگ میں ایک دوسرے کے حریف کون ہوں گے۔؟

ان دنوں تاریخ کی عجیب و غریب اور تکلیف دہ جنگ انسانیت پر مسلط ہے ۔۔تمام اہل کتاب مذاہب کافی عرصے سے اس امر پردلیلوں اور حوالوں کے ڈھیرلئے بیٹھے ہیں کہ قیامت کا وقت قریب آنے والا ہے۔۔اور آخری جنگ روئے زمین پر برپا ہونے والی ہے۔۔۔۔مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ ایسے ابتلاکے وقتوں میں مہدیؑ اور عیسیٰؑ کا نزول ہوگا۔۔۔جو کافروں سے جنگ کریں گے۔۔۔۔۔اور اس جنگ میں مسلمانو ں کی فتح کا پرچم بلند ہوگا۔ ۔۔۔عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے بیشتر افراد کا عقیدہ ہے کہ ہرمجدون سے پہلے عیسیٰ ؑ کا نزول ہوگا ۔۔۔اور وہ تمام عیسائیوں کو بادلوں پر لے جائیں گے۔۔۔جہاں سے وہ زمین پر برپا ہونے والی جنگوں کا حال اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے اور انہیں اس ہولناک جنگ میں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔۔۔۔اس نظریے کو ماننے والے زیادہ تر اسکوفیلڈ کے مکتبہ فکر کے لوگ ہیں۔
یہودی علماء بھی حضرت دانیال ؑ کی پیشن گوئی کو سامنے رکھ کر یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ ۔۔۔۔ان کا مسیحا بھی اب زمین پر اترنے والا ہے۔۔۔جو ان کی بادشاہت کو دنیا پر نافذ کرے گا۔۔۔جبکہ بیشتر اسلامی اور عیسائی علماء یہودیوں کے مسیحا کو دجال کا نام دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
۔۔۔بے شمار پیشن گوئیوں ، دلیلوں اور حوالہ جات کے باوجود کوئی حتمی دعویٰ نہیں کیا جاسکتاکہ ۔۔۔ہرمجدون یا آرماگیڈن کس وقت رونما ہوگی۔۔۔اور کس کس کے خلاف لڑی جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن یہ ضرور طے ہے کہ۔۔۔۔روئے ارضی پر برپا ہونے والی آخری جنگ۔۔۔۔اصل میں حق اور باطل قوتوں کے درمیان لڑی جائے گی۔۔۔۔اور شدید ترین گھمسان کی جنگ کے بعد ۔۔۔جیت کا تمغہ حق
کے سینے پر سجے گا۔۔۔اب یہ انسانیت کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اس جنگ میں باطل کے ساتھ ہیں یا حق کے ساتھ!!!!!!

0 comments:

Post a Comment