Sunday 16 March 2014

Filled Under:

ادراک

03:44

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان ، نہایت رحم والا ہے
ادراک

دعا


صدیوں کے نشیب و فراز سے گزر کر آیا ہواانسان کہیں اپنی جستجو کے بلند و بالا مینار بناتا دکھائی دیتا ہے۔۔تو کہیں حالات کی آندھیوں ، طوفانوں اور سیلابوں سے گھبرا کردست دعا بلند کرتا نظر آتا ہے۔۔۔۔آخر اس دعا میں ایسی کون سی تاثیر چھپی ہوئی ہے جو مشکل ترین حالات میں بھی حضرت انسان کو مایوس ہونے نہیں دیتی !!!۔۔۔۔۔کیا دعا محض انسان کی نفسیاتی تسلی کا نام ہے؟؟؟۔۔۔۔یادل مضطرب سے نکلی ہوئی دعا تقدیر تک کو بدل دیتی ہے؟


کامیابی کی دوڑ میں زندگی کی سڑک پر بھاگتے ہوئے کردار۔۔۔۔۔خواہش کے بازار میں دکانوں کو تکتے ، اٹکتے ، جھجھکتے اور سسکتے ہوئے انسان ۔۔۔۔۔۔۔مجبوریوں ، معذوریوں ، تمناؤں اور ضرورت کا بوجھ لادھے رینگتے، ڈگمگاتے ، گھبراتے ہوئے خاک کے پتلے۔۔۔ جب قانون فطرت کے آگے ہارنے لگتے ہیں تو دست دعا بلند ہوجاتے ہیں۔۔۔۔کہیں اجتماعی دعاؤں کے غول فضاء میں گردش کرتے ہیں تو کہیں تنہائی میں خالی ہتھیلیاں آسمان کی جانب اٹھ جاتی ہیں۔۔۔اور کہیں انسان کو محرومیاں اورمجبوریاں مزاروں کی چوکھٹ پر لے جاتی ہیں۔
دعاکی تاثیر میں چھپے اسرار ہمارے قدموں کو اولیاء اللہ اور مزاروں کی سرزمین ملتان لے گئی۔۔۔۔۔شہرِ ملتان کی پرپیچ اور قدیم گلیوں میں ایک گھر میں شہزاد احمد کا بھی ہے۔۔۔جو اپنی بیوی سعدیہ اوربیٹی لبنیٰ کے ساتھ خوشیوں کا سفر طے کررہا ہے۔۔۔۔شادی کے کئی برس گزرجانے کے باوجود یہ گھرانہ اولاد کی نعمت سے محروم تھا۔۔۔۔۔ایسے میں کسی نے انہیں بابا شاہ رکن عالم کے مزار پر دعا کرنے کا مشورہ دیا۔۔۔۔۔اور جب ان کے دست دعا اس مزار پر جاکر بلند ہوئے تو کچھ عرصہ بعد ہی ان کے گھر میں اولاد کا پھول کھل گیا۔۔۔۔اب یہ خاندان اپنی بیٹی سمیت یہاں حاضری دینے آتا ہے۔
اسی مزار پرہماری ملاقات ایک ایسی بوڑھی عورت ’’جیواں‘‘ سے ہوئی جو کسی اور ہی دنیا میں رہتی ہے۔۔۔۔۔کوئی اسے مجذوب کہتا ہے۔۔۔کوئی مائی کہتا ہے تو کوئی ملنگ کا نام دیتا ہے۔۔۔۔جیواں کا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔۔۔۔اس کے دن رات اس مزار پر آنے والے کرداروں کے درمیان گزرتے ہیں۔۔۔۔اور اس کا عقیدہ ہے کہ یہاں اسے بابا شاہ رکن عالم نے خود بلایا ہے۔۔۔اور وہ اس سے محبت کرتے ہیں۔۔۔۔۔اس مزار پر آنے والے اکثر کردار ’’جیواں‘‘ سے دعا کی درخواست کرتے ہیں۔۔۔اور جیواں نے عالم وجد میں دعاؤں کے پرندوں کو عالم بالا میں پہنچانے کا فریضہ سنبھالا ہوا ہے۔

کیا انسان اتنا کمزور اور بے بس ہے کہ اپنی دعا کی قبولیت کے لئے اسے مقدس ہاتھوں اور ہونٹوں کی ضرورت پیش آتی ہے؟؟۔۔۔یا عقیدوں کی بھول بھلیوں میں بھٹکتا ہوا انسان خالق اور مخلوق کے درمیان رابطے کی سیڑھیاں ڈھونڈتا پھر رہا ہے؟

اسے زندگی کا تضاد کہیے یا حسن۔۔۔۔کہیں انسان کی کمزوریاں اسے وسیلے ڈھونڈنے پر مجبور کر دیتی ہیں تو کہیں انسان کا اعتماد براہ راست عرش کے دروازے پر دستک دینے لگتا ہے۔
دعا کی کھوج کا یہ سفر طالبِ ادراک کو ملتان کی قدیم گلیوں سے کھینچتا ہوا زندہ دلان لاہور تک لایا تووہاں دعا کا ایک الگ مفہوم ہمارا انتظار کررہا تھا۔
شاہ نواز صاحب لاہور کے ایک پوش علاقے میں اپنی شریک حیات۔۔۔اپنی بیٹی اور نواسے کے ہمراہ آسودگی سے لبریز زندگی گزار رہے ہیں۔۔۔اس خاندان کا نظریہ دعا وسیلوں کی قطار وشمار سے الگ دکھائی دیتا ہے۔

کہیں خالق کائنات کے سامنے جھولی پھیلائی جاتی ہے۔۔ کہیں ماضی کے مزاروں پردست دعا بلند ہوتے ہیں۔۔۔اورکہیں پتھروں کے سامنے سرجھکائے جاتے ہیں۔۔۔۔ایسے میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ اشرف المخلوقات کہلانے والے انسان نے ترقی کی منازل اپنی جستجو سے طے کی ہیں یا ان کامیابیوں کے پیچھے اصل ہاتھ مضطرب دلوں سے اٹھنے والی دعاؤں کا ہے؟

کیا دعا کرنے سے کوئی ایسانادیدہ نظام رواں ہوجاتا ہے جہاں جستجو کا کوئی دخل نہیں۔۔۔۔اس سوال کی کھوج سے پہلے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ دعا اصل میں ہے کیا؟

دعا ہے کیا؟؟؟
دعا عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی التجااور پکار کے ہیں لیکن مذہبی مفہوم میں دعا سے مراد خالق کائنات سے کوئی فریاد کرنا یا کچھ طلب کرنا ہے۔۔۔۔اس کے علاوہ مخصوص آیات کے ورد کو بھی دعا شمار کیا جاتا ہے۔۔۔۔اور کسی شخصیت کے لئے نیک تمنا اور بھلائی کے اظہار کو بھی دعا کے زمرے میں شامل کیا جاتا ہے۔
اہل اسلام میں اللہ سے دعا مانگنا عبادت میں شامل ہے ۔۔۔اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں کئی دعائیں انسانوں کو بتائی ہیں کہ ان الفاظ میں یا اس طریقے سے دعا مانگنی چاہیے۔۔۔۔اسی طرح بعض پیغمبروں نے بھی جو اللہ سے دعائیں کی ہیں وہ بھی قرآن حکیم میں موجود ہیں ۔۔۔قرآن مجید کی سورہ فاتحہ کے بارے میں مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ یہ دعا اتنی عظیم ہے کہ اس میں ہر وہ دعا شامل ہے جو ہمارے دل و دماغ میں آسکتی ہے۔۔۔جیسے سورہ فاتحہ نے اپنے دامن میں ساری کائنات کو سمیٹ لیا ہو!!!!

۔۔ رحمت العالمین حضرت محمد ﷺ نے انسانیت کی بھلائی کے لئے بعض مواقع پر دعائیں مانگی ہیں جو احادیث مبارکہ میں درج ہیں۔۔۔ان دعاؤں پر غور کیا جائے تویہ دعائیں زندگی گزارنے کا ایک Complete Packageدکھائی دیتی ہیں۔

دل چسپ حقیقتیں اس وقت مسافران علم و ادراک کی دست بوسی کرتی ہیں جب قدیم اور دیگر الہامی کتب میں درج دعائیں نگاہوں کو خیرہ کردیتی ہیں۔


زبانوں کے اختلاف کو الگ رکھ کر دیکھا جائے توتقریباً تمام مذاہب کی کتابوں میں جو دعائیں اور حمدموجود ہیں ان کے بنیادی معنی اور مفہوم میں ایک عجیب سی مماثلت دکھائی دیتی ہے۔۔۔جیسے خالق کائنات کی تعریف کو مسلمان حمد کہتے ہیں۔۔۔ہندو آرتی کا نام دیتے ہیں۔۔۔۔۔بدھشٹ وندناکہتے ہیں۔۔۔۔پارسی یاسنا اور یہودی سالم کہتے ہیں۔

عام طور پر یہودی اور عیسائی اپنی دعاکے اول اور آخر میں ہللویاہ (Hallelujah)پکارتے دکھائی دیتے ہیں۔۔Halleluکا مطلب ہے دعا کرو۔۔۔اور ’’یاہ‘‘ لفظ یہواہ کا مخفف ہے۔۔یہواہ کا لفظ یہودی خدا کے لئے استعمال کرتے ہیں۔۔۔اس طرح ہللویاہ (Hallelujah)کا مطلب ہوا خدا کی حمد کرو۔۔۔۔عربی میں اس کا ترجمہ’’ الحمد اللہ‘‘ ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔اسی طرح ہندی زبان میں استعمال ہونے والا لفظ ’’ہری اوم‘‘ یا ’’ہرے اوم‘‘کے لغوی معنی بھی خدا کی تعریف کے ہیں۔۔۔۔لفظ ’’اوم‘‘ سنسکرت زبان کا ہے۔۔۔جس کے معنی ہیں ایسا نور یا ایسی ہستی جو کائنات کی وسعتوں میں پھیلی ہوئی ہے۔۔۔۔۔یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کے تمام مذاہب میں خالق کائنات سے دعا اور حمد صدیوں سے پڑھی جارہی ہیں ۔۔۔فرق صرف زبان کا ہے


ہندو مذہب کی دعا اوم جے جگدیش ہرے میں بھی دعائیں موجود ہیں ۔۔۔اورگائتری منتر میں بھی۔۔۔۔راکھو پتی راگھو۔۔۔ہو یا گیتا گیت خدائے واحد و یکتا کی دعائیں اور حمد ہر جگہ دکھائی دیتی ہیں۔۔۔۔۔مذاہب عالم کی مقدس کتابوں کی ورق گردانی سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ دعا صرف خالقِ کائنات سے مانگی جاتی ہے۔۔۔اور اس دعا میں خالق کائنات کی تعریف کے بعد اپنا مدعا اور حاجت بیان کی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔لیکن یہاں یہ سوال سر اٹھاتا ہے کہ پھر ہر کسی کی دعا قبول کیوں نہیں ہوتی ۔۔۔۔ایک انسان آسائشات، سہولیات اور لذتوں کی انتہاؤں پر پہنچا ہوا ہے ۔۔۔اور دوسرے انسان کے ماتھے پر دکھوں ، پریشانیوں ، غموں اور محرومیوں کی طویل داستانیں کیوں رقم ہیں؟

دعا کس کی قبول نہیں ہوتی؟
علماء کرام اور صوفیاء کہتے ہیں دعا کے لئے اضطراب اور یقین بنیادی شرط ہے۔۔یعنی اضطراب وہ قوت ہے جو دعا کو باب قبولیت تک پہنچاتا ہے۔۔۔۔قرآن مجید کی سورہ نمل کی آیت 62میں ہے۔
ترجمہ:(ہمارے سوا) وہ کون ہے جو بے قرار کی پکار کا جواب دے۔ (سورۃ النمل 62)
بے قراری اور اضطراب دعا کے وہ نادیدہ پر ہیں جو اسے عرش کی وسعتوں تک پہنچا دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔لیکن ہمارے مشاہدے میں یہ بھی آتا ہے کہ کئی کردارتڑپتے ہوئے بھی دعا مانگتے ہیں تو ان کی دعا قبولیت کی دہلیز پر پہنچ نہیں پاتی ۔۔اس کی کیا وجہ ہے؟

لیکن اکثر دیکھنے میں یہ بھی آتا ہے کہ ایک آدمی برائی سے بھی بچنے کی کوشش کرتا ہے ۔۔حرام بھی نہیں کھاتا ، انسانیت کے کام بھی آتا ہے پھر بھی اس کی دعا قبول کیوں نہیں ہوتی؟
علماء اس بارے میں کہتے ہیں کہ دعاکی تین حالتیں ہوتی ہیں۔۔۔ایک وہ دعا جو فوراً قبول ہوجاتی ہے۔۔دوسری وہ دعا جو برے وقت پر کام آنے کے لئے بچا لی جاتی ہے۔۔۔اور تیسرے وہ دعا جو آخرت میں انسان کے کام آتی ہے

فلاسفہ کہتے ہیں کہ دنیا مکافات عمل کا نام ہے ۔۔۔یعنی جو عمل کرو گے اسی کا نتیجہ ملے گا۔۔۔ایسے میں دعا کو کیا معنی دئیے جائیں؟
جب ہر عمل کا ایک نتیجہ نکلتا ہے تو دعا کرنا بھی ایک عمل ہے۔۔آخر اس عمل سے نتیجہ کس طریقے سے برآمد ہوتا ہے؟

دعا کیسے قبول ہوتی ہے؟
ماہرین روحانیت کے ہاں ہر حرف کا ایک خاص رنگ اور ایک مخصوص قوت ہوتی ہے۔۔۔غیب بینی کا دعویٰ کرنے والوں یعنی Clairvoyantsنے چند حروف کو لکھ کر انہیں وجدان کی آنکھ سے دیکھا تو انہیں ’’الف ‘‘کا رنگ سرخ دکھائی دیا۔۔۔’’ب ‘‘کا نیلا ۔۔۔’’د‘‘ کا سبز اور ’’س‘‘ کا رنگ زرد نظر آیا۔۔۔پھر ان حروف کے اثرات کا جائزہ لیا تو بعض الفاظ کے پڑھنے سے بیماریاں جاتی رہیں۔۔۔۔۔علماء کہتے ہیں کہ انبیاء اور اولیاء کی روحانی قوت بہت زیادہ ہوتی ہے اور ان کے کلمات میں حیرت انگیز تاثیر اور قوت پائی جاتی ہے۔اتنی طاقت کہ ان سے خطرناک بیماریاں تک دور ہوجاتی ہیں۔

علماء کرام کہتے ہیں الہامی صحائف کا ہر لفظ قوت کا ایک خزانہ ہوتا ہے۔۔۔۔۔یعنی الہامی الفاظ Highly energisedہوتے ہیں۔۔۔۔تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم اپنی دعا میں الہامی الفاظ کا استعمال کریں تو وہ فوراً قبول ہوجائیں؟

کیا الہامی الفاظ میں کوئی قوت پوشیدہ ہے؟

روحانی علماء کہتے کہیں کہ الہامی الفاظ اور اسمائے الہٰی میں اتنی طاقت ہے کہ ان کے ورد سے ہماری پریشانیاں اور بیماریاں دور ہوجاتی ہیں۔۔۔مسلمان اس لحاظ سے بھی زیادہ خوش ہیں کہ ان کے پاس اللہ کے ننانوے صفاتی نام موجود ہیں۔۔جیسے رحیم، کریم ، غفور، خبیر!!!
ان اسمائے الہیہ کو مسلمان حسب حاجت پکارتے ہیں۔۔۔لیکن یہ سہولت دیگر مذاہب میں موجود نہیں ہے۔۔ہندوؤں کے پاس صرف لفظ ’’اوم‘‘ ہے۔۔۔۔عیسائیوں کے پاس ’’GOD‘‘ ہے۔

الہامی اسماء کی تاثیر اصل حروف میں ہوتی ہے۔۔۔اگر کسی اسم کا ترجمہ کردیا جائے تو وہ بات نہیں رہتی اور اثر بدل جاتا ہے۔۔۔جو طاقت ’’یا رحیم ‘‘ میں ہے وہ ’’یا مہربان ‘‘ میں نہیں ہے۔

۔۔۔یہاں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ گویا دعا کی قبولیت الفاظ کی قوت میں چھپی ہوئی ہے۔۔۔۔آخر ان الفاظ میں ایسا کیا ہے جو دعا کو قبولیت کی دھلیز تک پہنچا دیتے ہیں؟

الفاظ کی اصل طاقت کیا ہے؟
دراصل ہر لفظ ایک یونٹ یا ایٹم ہے۔۔۔جسے انسان کے اندرونی جذبات کی بجلیاں چارچ کردیتی ہیں۔۔اور اس کے اثرات اس عالم خاکی اور عالم لطیف (کاسمک ورلڈ یا آسٹرل ورلڈ) دونوں میں نمودار ہوتے ہیں ۔۔۔۔الفاظ کی قوت کی ایک معمولی سی مثال ’’گالی ‘‘ ہے۔۔۔۔۔گالی کسی تلوار یا توپ کا نام نہیں ۔۔بلکہ یہ چند حروف کا مجموعہ ہے۔۔۔۔لیکن منہ سے نکلتے ہی مخاطب کے تن بدن میں آگ لگا دیتی ہے۔۔۔یہ آگ کہاں سے آتی ہے؟۔۔۔الفاظ کے اسی مجموعے سے!!!!

الفاظ کی قوت کی کئی مثالیں ہمارے معاشرے میں ہمیں دکھائی دیتی ہیں۔۔۔۔مثلاً کسی بے ہمت اور تھکی ہاری فوج کے سامنے کوئی آتش بیاں جرنیل اپنی تقریر میں ہرسپاہی کے رگ و ریشے میں ایسی آگ بھر دیتا ہے جوموت کے سیلابوں اور طوفانوں سے بھی نہیں بجھ سکتی۔
لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر الفاظ میں یہ طاقت کہاں سے آتی ہے ۔۔۔اور اس کا اثر کس طرح ہوتا ہے۔۔۔۔اس سوال کے جواب میں روحانی علماء امواج اثیر کا نام لیتے ہیں۔۔ امواج اثیر یا کا سمک وائبریشن کو سمجھنے سے پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ عالم اثیر یا کا سمک ورلڈ ہے کیا؟

کا سمک ورلڈ، آسٹرل ورلڈ یا عالم اثیر!!!!
روحانی مفکرین کے چند مکتبہ فکر ایسے ہیں جو اس دنیا جس میں ہم جی رہے ہیں کے علاوہ ایک ایسی دنیا کا زکر کرتے دکھائی دیتے ہیں جسے کوئی کا سمک ورلڈ، کوئی ایتھر، کوئی آسٹرل ورلڈ، کوئی اثیری دنیا تو کوئی عالم مثال کہتا ہے۔

روحانی علماء کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ اس دنیا میں ہم جو اچھا برا کرتے ہیں اس کا براہ راست اثر اس کا سمک ورلڈ میں پیدا ہوتا ہے۔۔۔اور اس اثر کے رد عمل میں جو کچھ کا سمک ورلڈ سے زمین کی طرف آتا ہے اسے ہم مکافاتِ عمل کہتے ہیں۔

ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ روحیں اسی دنیا سے ہماری دنیا میں آتی ہیں اور اپنی مدت پوری کرنے کے بعد اسی دنیا میں واپس چلی جاتی ہیں۔۔۔۔ان کے مطابق جن اور فرشتے بھی اسی اثیری دنیا میں رہتے ہیں۔۔۔اس کا سمک ورلڈ کے تین طبقے بتائے جاتے ہیں ۔۔۔سب سے نچلے طبقے میں گنہ گار کردار اپنے اعمال کی پاداش میں سزا کاٹ رہے ہیں۔۔۔۔دوسرے طبقے میں متوسط درجے کے اچھے لوگ آباد ہیں۔۔۔۔۔اور تیسرے یعنی سب سے اونچے طبقے میں بہترین کردار موجود ہیں۔۔۔ان میں اولیاء، فلاسفہ اور انبیاء کرام موجود ہیں۔۔۔۔۔اس عالم مثال یا کا سمک ورلڈ میں کوئی بھی مادی وجود نہیں رکھتا۔۔۔بلکہ یہاں جو کچھ ہے وہ اجسام لطیفہ یعنی روشنی کی شکل میں موجود ہیں۔

بعض روحانی مفکرین یہاں تک بھی کہتے سنائی دیتے ہیں کہ کا سمک ورلڈ میں ساری کائنات کی اصل موجود ہے۔۔۔اور جس دنیا میں ہم جی رہے ہیں اس دنیا میں محض ہمارے عکس موجود ہیں۔

لیکن یہاں یہ سوال ابھرتا ہے کہ آیا ایسی کوئی اثیری دنیا موجود ہے یا یہ محض انسان کی تخیل پروازی ہے؟

روحانی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری زمین اور کا سمک ورلڈ کا باہمی رابطہ ان لہروں یا وائبریشنز سے ہوتا ہے جو ہمارے اعمال کا رد عمل ہوتی ہیں۔

امواج اثیر کیا ہیں؟

سائنسدانوں کا ایک گروہ اور روحانیت کا ایک مکتبہ فکر ’’ایتھر‘‘ کا زکر کرتا دکھائی دیتا ہے۔۔۔یہ ایتھر ایک انتہائی حساس چیز ہے۔۔جس میں ایک مدہم سی آواز سے بھی وہاں ہیجان پیدا ہوجاتا ہے۔۔ان کے مطابق ہمارے دعا کرنے سے عالم اثیر یا کا سمک ورلڈ میں اضطراب پیدا ہوجاتا ہے۔۔۔جب ہم کسی مصیبت یا رنج میں مبتلا ہوکر نیاز و گداز میں ڈوب کردست دعا بلند کرتے ہیں توہمارے اندرونی جذبات کی قوت یا ایموشنل اینرجی کا سمک ورلڈ میں شدید لہریں پیدا کرتی ہے ۔۔یہ لہریں مفید اور فیض رساں طاقتوں سے ٹکراتی ہیں۔۔۔یہ فیض رساں طاقتیں یا تو خود ہر رکاوٹ کو عبور کرتے ہوئے ہماری مدد کو پہنچتی ہیں۔۔۔یاخیال کی کوئی ایسی لہر ہمارے دماغ تک پہنچاتی ہیں جو ہمارے دماغ سے ٹکرا کر ایک ایسی تجویز کی شکل اختیار کرلیتی ہے جس پر عمل پیرا ہونے سے ہماری تکلیف دور ہوجاتی ہے۔

کیا دعا اور قبولیت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں؟

ایک یورپی مفکر لیڈ بیٹر اپنی کتاب The Masters and the pathکے صفحہ231میں لکھتا ہے۔
’’گداز اور اضطراب میں ڈوبی ہر آواز کا جواب ضرور آتا ہے۔۔اگر ایسا نہ ہوتو لوگ کائنات کو مردہ سمجھنے لگیں۔۔۔دعا اور قبولیت ایک سکے کے دو رخ ہیں۔قبولیت اسی طرح دعا کا دوسرا رخ ہے جس طرح نتیجہ سبب کا‘‘
لیکن یہاں ادراک کی چوکھٹ پر ایک اور سوال سراٹھاتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں جو ہر طرف مایوسی ، افراتفری اور خون کی ہولیاں کھیلی جارہی ہیں۔۔۔تو دعاؤں کے اثر سے یہ سب کچھ بہترکیوں نہیں ہوجاتا؟۔۔۔کیا دعاؤں سے اس ملک میں امن و سکون نافذ ہوسکتا ہے؟
عبادت گاہوں میں لوگ گڑگڑا گڑگڑا کر دعائیں مانگتے دکھائی دیتے ہیں۔۔۔۔۔کچھ ہیں جو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے دعا مانگتے ہیں۔۔اور کچھ ایسے کرداررٹے ہوئے جملوں کو دہراتے نظر آتے ہیں۔۔۔ایسے میں انسان کس طرح یہ فیصلہ کرے کہ دعاکے لئے بنیادی شرط کیا ہے؟

دعا کے لئے بنیادی شرط کیا ہے؟

علماء کرام کا کہنا ہے دعا کے لئے بنیادی شرط ایمان و یقین ہے۔۔۔۔اگر سچے دل سے اخلاص کے ساتھ دعا مانگی جائے گی تو مایوسی کے اندھیروں میں دعا کی روشنی اجالا بکھیر دے گی۔
یہ دعا ہی تو ہے جو ٹوٹے ہوئے جذبوں اور حوصلہ کو پھر سے یکجا کرتی ہے۔۔۔۔یہ دعا ہی تو ہے جو بدترین حالات میں بھی جینے کی امید دلاتی ہے۔۔۔۔یہ دعا ہی تو ہے جو مخلوق کو خالق کے قریب لے آتی ہے۔۔۔یہ دعا دراصل مخلوق کی خالق سے گفتگو ہے۔
قرآن مجید کی سورۃ البقرہ کی آیت 186میں اللہ رب العزت اپنے اور بندے کے تعلق اور دعا کے متعلق فرماتے ہیں۔

ترجمہ: اور (اے پیغمبرﷺ) جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو (کہہ دو کہ )میں تو (تمہارے) پاس ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں، تو ان کو چاہیے کہ میرے حکموں کو مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ نیک راستہ پائیں۔ سورۃ البقرہ ۔186
دعا خالق اور بندے کے درمیان تعلق کی انتہائی شکل ہے۔۔۔۔دعا قرب کا وہ معاملہ ہے جس میں انسان اور خدا کے درمیان تکلف کا کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔
جب مخلوق اور خالق کا تعلق استوار ہوجائے تو دعائیں زبان تک پہنچنے سے قبل ہی شرف قبولیت حاصل کرلیتی ہیں۔

0 comments:

Post a Comment