Sunday, 16 March 2014

Filled Under:

کیلاش

04:12

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ادراک
کیلاش

سبز پوش پہاڑ ، بل کھاتے دریا، مکئی کے کھیت، خوشبوبکھیرتی ہوا،زرق برق لباس میں ملبوش دوشیزائیں،انوکھی رسومات اور انتہائی منفرد تہواروں کی سرزمین۔۔۔وادیِ کیلاش۔۔جس کے حسن اورانوکھے پن نے برسوں سے دنیا بھر کے سیاحوں کواپنے سحر میں گرفتار کیا ہوا ہے۔۔۔۔آج کے جدید دور میں بھی کیلاش کے باسیوں نے اپنی تہذیب و ثقافت کوزندہ کیسے رکھا ہوا ہے؟۔۔۔اس سوال کی جستجو ہمیں ان پرخطر راستوں کی طرف لے گئی۔۔۔جو وادی کیلاش میں جانے کا واحد ذریعہ ہیں

وادیِ کیلاش چترال سے تقریباً 38کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔۔۔لیکن یہ مختصر فاصلہ انتہائی دشوار گزار راستوں اور پرہیبت پہاڑوں سے گزرکر ہی طے کیا جاسکتا ہے۔۔۔وادی کیلاش کی حیرت انگیز بودوباش دیکھنے کے شائقین کے لئے وادی آیون کے معلق پل سے بھی ڈگمگاتے ہوئے گزرنا پڑتا ہے جو کیلاش کی وادی میں قدم رکھنے کا واحد راستہ ہے۔۔۔کیلاش کی تینوں وادیوں بمبوریت، ریمبور اور بریراسی راستے سے گزرکر آتے ہیں۔۔وادی آیون کے معلق پل سے گزرنے کے بعد بھی آزمائشوں کے مرحلے ختم نہیں ہوتے۔۔۔۔ بادلوں کی دھند میں لپتے راستے،،بلند و بالا برفانی چوٹیوں کی وحشت اور انتہائی خطرناک موڑ۔۔۔ذرا سی بے احتیاطی سیکڑوں فٹ گہری کھائیوں میں ہمیشہ کی نیند سلاسکتی ہے۔۔۔۔لیکن یہ کیلاش کے حسن کا جادو ہی ہے۔۔۔جو دنیا جہاں سے سیاحوں کوان خطرات کی پرواہ کئے بغیر اپنی جانب کھینچ لیتا ہے۔

کافرستان کہلانے والی وادی کیلاش کئی حوالوں سے انسانی تہذیب وثقافت کا ایک عجوبہ ہے۔۔اس وادی کو کافرستان یوں کہاجاتا ہے کہ نہ وہ خدا کو مانتے ہیں ۔۔اورنہ ہی ان لوگوں کا کوئی مذہب ہوتاہے!!!
کیلاش کے لوگ کہاں سے آئے ۔۔۔ان کی تہذیب نے کہاں سے جنم لیا۔۔۔اس بارے میں بے شمار رائے تاریخ کے صفحات پر درج ہیں۔۔۔۔کسی نے کیلاش کے باسیوں کی اصل دراوڑ کی اس شاخ سے جوڑی ہے جو ابتداء میں مہاندیو کے ماننے والے چینی تھے۔
لیکن کیلاشیوں کی مرجن جیون کی رسومات قدیم اسرائیلوں سے بھی ملتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔چند مصنفین نے مغربی افریقہ کی ایک قوم ’’چوس‘‘ سے بھی ان کیلاشیوں کے تانے بانے جوڑے ہیں۔۔۔۔جبکہ کچھ کیلاشی کہتے ہیں کہ ان کے جدامجد یونانی تھے۔۔۔جو سکندراعظم کے ساتھ آئے تھے اور پھر یہیں رہ گئے تھے۔۔۔۔شاید اسی وجہ سے یونان نے اس علاقے کی تعمیر و ترقی میں خاصا کردار ادا کیا ہے ۔۔جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔۔۔۔دلچسپ امر یہ ہے کہ خود کو دنیا کی بہترین قوم کہلوانے والے جرمنیوں نے بھی انہیں آریاؤں کی اولاد ثابت کرنے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔۔۔۔۔۔اکثر کیلاشی اپنے آپ کو سیام یعنی تھائی لینڈ کے باشندے شمار کرتے ہیں۔۔۔شاید اسی وجہ سے ان کے لوک گیتوں میں سیام کا لفظ بارہا استعمال ہوتا سنائی دیتا ہے۔۔۔۔۔جب بارشیں رکنے کا نام نہیں لیتیں تو کچھ عورتیں یہ گیت گاتی ہیں کہ۔۔۔اے خدا ۔۔۔تو ہم سے بمبوریت لے لے اور ہمارا سیام ہمیں واپس لوٹا دے۔۔۔۔۔بعض یورپی سیاحوں نے بھی یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ کیلاش جیسی اقدار والے چند قبائلی تھائی لینڈ میں بستے ہیں۔۔۔۔۔حیرت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب کچھ کیلاشی یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ۔۔۔ہم افغانستان کے علاقے کافرستان سے ہیں۔۔۔جسے اب نورستان کہاجاتا ہے۔۔۔۔۔جبکہ چند ایسے محققین بھی سامنے آئے ہیں جو کیلاشیوں کو چترال کے باشندے ثابت کرنے پر کمربستہ ہیں۔۔۔۔۔لیکن کیلاشیوں کی اصل حقیقت کیا ہے!!!۔۔یہ ابھی تک ایک پیچیدہ معمہ بنا ہوا ہے۔

کیلاش کی سڑکوں اور گلیوں سے گزرتے ہوئے کہیں لکڑی کے گھروں کی کھڑکیوں سے جھانکتی سروں پر سیپیوں اور تاج والی ٹوپیاں پہنے حسین دوشیزائیں دکھائی دیتی ہیں۔۔کہیں دشوار گزار راستوں سے کاندھوں پر بوجھ اٹھائے گزرتے ہوئے بوڑھے نظر آتے ہیں۔۔۔اور کہیں بچپن کے معصوم کھیلوں میں مصروف شفاف گلابی رنگت والے حسین بچوں پر نظر جا ٹھہرتی ہے۔۔۔۔۔یہاں کے لوگ کیلاشی بولی بولتے ہیں۔۔۔اور کسی کو سلام کہنے کے لئے ۔۔۔۔ایش پاتا کہتے ہیں۔۔۔۔ایش پاتا کا مطلب ہے۔۔۔تم کیسے ہو۔

دوردراز ممالک سے آنیو الے سیاحوں کو یہاں سب سے بڑا مسئلہ کھانے پینے کا ہوتا ہے۔۔۔۔کیونکہ کیلاش کے کئی باشندے مردہ جانوروں کو بھی کھاجاتے ہیں۔۔جن میں کتے اور بلیاں بھی شامل ہیں۔۔۔اور کچھ تو ایسے بھی ہیں جو جانوروں کا کچا گوشت انتہائی رغبت سے کھاتے ہیں۔
کیلاش میں بسنے والوں کابنیادی ذریعہ معاش کھیتی باڑی اور مویشی پالنا ہے۔۔۔اس کے علاوہ سیاحوں کے لئے رہائش گاہیں بھی کرائے پر دی جاتی ہیں۔۔۔جن کی مد میں انہیں اچھا خاصا منافع مل جاتا ہے۔۔۔خواتین گھروں میں کیلاشی لباس بنتی دکھائی دیتی ہیں۔۔۔یہ لباس جہاں شوخ رنگوں سے سجایا جاتا ہے وہیں سیاح اس لباس کو منہ مانگے داموں خرید لیتے ہیں۔۔۔سیاحوں کے لئے یہ لباس ایسا خزانہ ہوتا ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔

کچھ کیلاشی جفاکش جنگلوں سے لکڑیاں کاٹ کر اپنا اور بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔۔۔دنیا بھر کی تمام قوموں سے جداگانہ تہذیب کی حامل وادی کیلاش میں بجلی کی فراوانی دکھائی دیتی ہے۔۔اس کا واحد سبب ہے وہ پن چکی جو دریا کے پانی سے پوری وادی میں روشنی مہیا کرتی ہے۔۔۔۔۔یہاں کے باسیوں نے دریا کے پانی سے آٹے کی چکی بھی ایجاد کی ہوئی ہے۔۔۔۔۔جہاں کیلاش کی محنت کش خواتین اپنے حصے کا رزق پیستی دکھائی دیتی ہیں۔

لڑکی کی کہانی
کیلاش کی وادی جتنی اجلی اور روشن دکھائی دیتی ہے۔۔۔یہاں کے لکڑی کے گھر اتنے ہی ملگجی اندھیرے میں ڈوبے دکھائی دیتے ہیں۔اور ان گھروں میں شیشے جیسی انگلیوں سے شوخ رنگ کپڑے بنتی کیلاشی خواتین ۔ایک عجیب ہی فضاء ہے اس جادونگری کی۔۔۔اس سرزمین پر قدم رکھنے کے بعد ایسا لگتا ہے۔۔۔جیسے ہم کسی اور ہی دنیا میں پہنچ گئے ہوں۔۔۔۔۔۔اسی دنیا میں ایک گھر شونافزے کا بھی ہے۔۔۔۔جو آنے والے تہوار چلم جوشی کے لئے ابھی سے تیاری کررہی ہے۔
یہاں بسنے والے ہرشخص کی زندگی میں کیلاش کے تہوار نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔۔لیکن شونافزے کے لئے چلم جوشی کی کچھ خاص اہمیت ہے۔۔بدلتے موسموں کے ساتھ آنے والا تہوار شونافزے کے چہرے پرماضی کے وہ حسین رنگ لہرا جاتا ہے۔۔۔جو اس کی زندگی کا حاصل ہیں۔۔۔ایسے ہی ایک تہوار میں کوئی اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھربھگا لے آیا تھا۔۔۔اور یوں یہ دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے تھے۔


چلم جوشی کا تہوارمئی کے وسط میں منایا جاتا ہے۔۔۔جب بہار اپنے پورے عروج پر ہوتی ہے۔۔اس تہوار کے دن مقامی لوگ جڑی بوٹیوں کے پانی سے غسل کرتے ہیں اور جوان جوڑے رقص کرتے ہیں۔۔زرق برق لباس دوشیزائیں، موتیوں سے سجی ٹوپیاں ، اور ٹوپیوں پر سجے مرغ زریں کے پروں کے گچھوں سے بنے پھول ، ہوہو کی آوازوں کا شور اس تہوار کو زندہ و جاوید بنا دیتا ہے۔۔۔یہ تہوار تین دن تک دن ورات مسلسل جاری رہتا ہے۔۔۔۔لوگ جب تھک جاتے ہیں تو گھروں کی چھتوں اور کھڑکیوں سے تہوار کے مناظر دیکھتے ہیں۔۔۔اور پھر تازہ دم ہوکر ایک بار پھرتہوار کے رنگوں میں گم ہوجاتے ہیں۔۔اور لڑکیاں ڈھولک کی تھاپ پر گول گول دائروں میں دھیما دھیما رقص کرتی جاتی ہیں۔۔۔۔۔لیکن یہ عام رقص نہیں ہوتا۔۔۔بلکہ یہ دھیما دھیما بہتا ہوا رقص ان کیلاشیوں کی مذہبی عبادت میں شامل ہے۔۔۔۔اسی تہوار میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کا فرار بھی ہوتا ہے۔۔۔جسے مقامی زبان میں شادی کہتے ہیں۔

شادیوں کا طریقہ کار۔۔۔اور تہوار
وادی کیلاش میں شادیوں کا بھی عجیب ہی دستور ہے۔۔۔یہاں نہ اسلامی اصولوں کے مطابق نکاح ہوتا ہے۔۔۔نہ ہندوؤں کی طرح سات پھیرے لئے جاتے ہیں۔۔۔۔نہ کرسچنز کی طرح کسی چرچ میں جایا جاتا ہے۔۔۔۔یہاں تو بس کسی تہوار میں جسے جو پسند آجائے ، اس کا ہاتھ پکڑتا ہے اوربھگاکر گھر لے آتا ہے۔۔۔۔یہاں اسی کو شادی کہتے ہیں۔۔۔۔اگلے دن لڑکی کے گھر والے وہ تمام سامان ، مال مویشی اور زیورات وغیرہ جو لڑکی استعمال کرتی تھی۔۔وہ سب خوش دلی کے ساتھ اس کے شوہر کو سونپ دیتے ہیں۔جن کی مالیت چالیس پچاس لاکھ تک چلی جاتی ہے۔۔۔حیرت کی انتہاء اس وقت ہوتی ہے۔۔۔جب کوئی بھی شادی شدہ عورت اپنے شوہر کی موجودگی میں کسی بھی مرد کا ہاتھ پکڑ کر اس کے ساتھ چلی جاتی ہے۔۔۔ ایسے میں نہ کوئی جھگڑا ہوتا ہے نہ مرنے مارنے کی کوئی بات ہوتی ہے۔۔۔سب کچھ خوش اسلوبی سے انجام پاجاتا ہے۔

کیلاش میں چلم جوشی کے علاوہ تین تہوار اور منائے جاتے ہیں ۔۔۔پورلPorl کا تہوارستمبر کے آخری دنوں اور اکبوتر کی ابتدائی تاریخوں میں آتا ہے اور چاؤمس کا تہواربیس دسمبر کی تاریک راتوں میں منایا جاتا ہے۔۔۔۔ چاؤمس کے تہوار کے دس دن بعد جوشی کے تہوارآغاز ہوتا ہے۔


ان تہواروں میں چاؤمس کا تہوار اپنی نوعیت کے اعتبار سے انتہائی پراسرار اور انوکھا ہوتا ہے۔۔۔چاؤ مس کی رسومات دس راتوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔جن میں رقص کے علاوہ بدروحوں کو بھگایا جاتا ہے، مقدس جگہوں پر سیاہی سے تصاویر بنائی جاتی ہیں۔۔۔ اور گھر کا بڑا بیٹا مویشی خانے کی چھت پر بیٹھ کر اخروٹ اورنمک کے آمیزے سے روٹیاں بناکر تقسیم کرتا ہے۔۔۔اور یوں یہ تہواراپنے اختتام کو پہنچ جاتا ہے۔ ۔

آج کے مہذب معاشرے میں کیلاش کی عجیب و غریب رسومات دنیا کے لئے ایک معمہ بنی ہوئی ہیں۔۔۔۔۔خاص طور پر وہ رسم جو وہ گھربنانے کے بعد ادا کرتے ہیں۔۔۔۔کیلاش کے باشندے اپنے گھر کا ایک کونہ مخصوص کرتے ہیں اور فرض کرتے ہیں کہ یہاں پیور نامی ایک فرشتہ یا دیوتا موجود ہے۔۔۔۔جواس وقت تک خوش نہیں ہوتا۔۔جب تک اسے بھینٹ نہیں دی جاتی۔۔۔۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جس کونے میں دیوتا یا فرشتے کے لئے جگہ مخصوص کی جاتی ہے وہاں صرف مرد ہی جاسکتے ہیں۔۔عورتوں اور بچوں کو جانے کی وہاں اجازت نہیں ہوتی۔۔۔کیلاش کے مقامی لوگ چار دیوتاؤں کو مانتے ہیں۔۔۔جن کے نام ہیں ۔۔۔مہاندیو، ورن، پرابہ اور گریمون۔

بھینٹ چڑھانے کے لئے یہ لوگ کسی توانا جوان یا بزرگ کو منتخب کرتے ہیں۔۔۔وہ بزرگ ایک مخصوص جگہ پر جاتا ہے جہاں اپنی دانست میں پاک ہوسکے۔۔۔وہاں وہ پانی سے پانچ بار اپنے ہاتھ پاک کرتاہے۔۔۔اور خنجر دھوتا ہے۔۔۔۔۔اور پھر یہ بزرگ کچھ کلمات پڑھتے ہوئے ہاتھ میں خنجر اٹھائے گلیوں سے گزرتے ہوئے اس مقام کی طرف بڑھتا ہے۔۔۔جہاں ایک بھینٹ اس کا انتظار کررہی ہے۔


صدیوں پہلے کا انسان اپنی جان و مال کی حفاظت اورروزگار کے معاملات میں بہتری کے لئے دیوتاؤں کے سامنے بھینٹ چڑھایا کرتا تھا۔۔۔۔۔یہ بھینٹ کہیں جانور کی ہوتی تھی ۔۔اور کہیں نوخیز دوشیزہ کی۔۔۔۔۔جیسے جیسے انسان ترقی کرتا گیا اسے قدرتی آفات اور فطرت کے اصول سمجھ آتے گئے۔۔۔اورفرضی دیوتاؤں کے بت پاش پاش ہوتے گئے۔۔۔لیکن بھینٹ چڑھانے کی یہ رسم کچھ قبیلوں میں آج بھی موجود ہے۔۔۔جن میں سرفہرست ہے۔۔۔کیلاش قبیلہ!!!!۔۔۔۔۔لیکن وادی کیلاش میں چڑھائی جانے والی بھینٹ کی داستان سب سے مختلف بھی ہے ۔۔۔اور پراسرار بھی!

کیلاش کے تقریباً تمام باسی صدیوں سے دیوتاؤں کو بھینٹ چڑھاتے آرہے ہیں۔۔۔۔گو کہ آج کے جدید دور میں بھینٹ چڑھائے جانے کی رسموں کی شدت میں کمی تو آگئی ہے۔۔۔لیکن آج بھی کیلاش کے ہر گھر میں ایک کونا مخصوص کیاجاتا ہے۔۔۔جہاں ان کے عقائد کے مطابق کوئی دیوتا یا فرشتہ رہتا ہے۔۔۔ وادی کیلاش میں جب بھی کوئی نیا گھر تعمیر ہوتا ہے تو ایک مخصوص کونے پر بھینٹ کا تازہ خون چھڑکنا فرض سمجھا جاتا ہے ۔۔۔حیرت اس وقت ادراک کے دریچوں پر دستک دیتی ہے ۔۔۔جب یہ علم ہوتا ہے کہ کیلاش کے ہر گھر میں ہرمہینے یہ بھینٹ چڑھائی جاتی ہے۔

بھینٹ چڑھانے والا آدمی پہلے تو کالے بکرے کی گردن کاٹتا ہے۔۔۔پھر اس کی گردن پوری طاقت سے توڑ مروڑ دیتا ہے۔۔۔۔جب بکرے کی گردن سے تھل تھل کرتا تازہ خون نکلتا ہے تو بھینٹ چڑھانے والایہ تازہ خون اپنے ہاتھوں کے پیالوں میں بھر کر دیوار کے اس کونے پر چھڑک دیتا ہے۔۔۔جہاں ان کے مطابق دیوتا موجودہوتا ہے۔۔۔۔کیلاش کے باسیوں کا عقیدہ ہے کہ جب ہم دیوار کے کونے کو بکرے کی بھینٹ دیتے ہیں تو اس طرح یہ دیوتا ہمارے خاندان کی حفاظت کرتا ہے۔۔۔اور قدرتی آفات سے انہیں محفوظ رکھتا ہے۔۔۔۔
اس کے علاوہ ان کی روزی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔۔۔اور مال مویشی بھی بیماریوں اور چوریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔
بھینٹ چڑھائے گئے بکرے کا گوشت صرف مرد ہی کھاسکتے ہیں۔۔۔عورتوں کو یہ گوشت کھانے کی اجازت نہیں ہوتی۔۔۔۔اگر کوئی عورت غلطی سے یہ گوشت کھالے تووہ زندگی بھرکے لئے ناپاک اور منحوس تصورکی جاتی ہے۔۔۔۔۔اس غلطی کا صرف ایک ہی ازالہ ہوتا ہے۔۔۔اور وہ یہ ہے کہ وہ عورت بھی ایک بکرے کی بھینٹ دے اور اس کا گوشت مردوں کو کھلائے۔۔۔۔اس طرح اس عورت کی ناپاکی بھی ختم ہوجاتی ہے۔۔اوروہ نحوست سے بھی پاک ہوجاتی ہے۔

سطح زمین سے دو، ڈھائی ہزار فٹ بلندی پرکیلاش کی وادیوں میں زندگی کے اتنے مختلف اور انوکھے رنگ بکھرے ہوئے ہیں کہ دنیا میں نہ کہیں ان کی کوئی مثال ملتی ہے۔۔ نہ کوئی مزاج ملتا ہے۔۔اور نہ کوئی زبان ملتی ہے۔
کیلاش کے باسی کیلاشی زبان بولتے ہیں۔۔۔۔یہ زبان ’’دری‘‘ زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔۔۔جس طرح کیلاش کے قبیلے کے تانے بانے مختلف اقوام سے جوڑے جاتے ہیں۔۔اسی طرح کیلاشی زبان کے بارے میں بھی آج تک کوئی حتمی رائے سامنے نہیں آئی ہے۔۔۔۔۔
لسانیات کے ماہر رچرڈ اسٹرانڈ کا کہنا ہے کہ کیلاش کے باسیوں نے یہ نام قدیم کافرستان سے مستعار لیا ہے۔
ایک اور حوالے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کیلاش کا نام دراصل ’’کاسوو‘‘ تھا ۔۔جو کہ بعد میں ’’کاسیو‘‘ استعمال ہونے لگا۔۔۔’’کاسیو ‘‘ نام نورستان کے قبائل نے یہاں آباد قبائل کے لئے مخصوص کر رکھا تھا۔۔۔آنے والے ادوار میں یہ ’’کاسیو‘‘ نام ’’کالاسایو‘‘ بنا اور پھررفتہ رفتہ ’’کالاسہ ‘‘ اور پھر ’’کالاشہ‘‘ اور اب ’’کیلاش‘‘ کے نام سے پکارا جانے لگا۔

۔۔۔کیلاش کے باسیوں کے زیادہ تر تہوار اترتے چڑھتے موسموں پر منحصر ہیں۔۔۔۔سردی ، گرمی ، خزاں بہار۔۔۔۔ان چاروں موسموں کی مختلف کیفیات ان کے تہواروں میں جابجا دکھائی دیتی ہیں۔
وادی کیلاش میں منائے جانے والے زیادہ تر تہوار ان کے دیوتا نگت تیہار کے بتائے ہوئے ہیں۔۔۔۔صدیوں پہلے نگت تیہار ان کا روحانی پیشوا تھا۔۔۔جس کی باتوں پر عمل کرنا آج بھی ان کے نزدیک نیکی کی علامت ہے۔۔۔نگت تیہار کے بارے میں کیلاش کے قبیلے میں عجیب و غریب روایات پھیلی ہوئی ہیں۔


پورل کا تہوار بھی نگت تیہار کے حکم پر منایا جاتا ہے۔۔۔۔جاتے ہوئے ستمبر اور آتے ہوئے اکتوبرمیں یہ تہوار وادی کیلاش میں ہر سو رنگ بکھیر دیتا ہے۔۔۔یہ تہوار دیکھنے لوگ ملک کے طول و عرض سے ہی نہیں آتے۔۔۔بلکہ اس تہوار کا جادو سیاحوں کوسات سمندر پار سے بھی اپنی جانب کھنچ لیتا ہے۔۔۔یہاں تہوار میں صرف رقص ہی نہیں کیا جاتا۔۔بلکہ ڈھول بھی بجائے جاتے ہیں۔تالیاں بھی بجائی جاتی ہیں۔۔اور مویشیوں کا دودھ بھی تقسیم کیا جاتا ہے ۔
ڈھول کی تھاپ اور تالیوں کے ترنم میں یہاں ایک مخصوص گیت گایا جاتا ہے۔
’’اے خزاں پت جھڑ کا موسم جارہا ہے۔۔۔۔اے سردیوں کی مدھر چاندنی ہمارااستقبال کر
ہمیں تیز بارشوں اور برف باری کے عذاب سے بچا۔۔۔دیکھ تجھے خوش کرنے کے لئے ہم اپنے گھروں سے نکل آئے ہیں۔۔اور تیرے آنے کا جشن منا رہے ہیں۔‘‘

ڈھول بجانا۔۔تالیاں بجانا اور دودھ تقسیم کرنا ان کے دیوتا نگت تیہارکا حکم ہے۔۔۔جس کے حکم کی بجاآوری یہاں مذہبی اقدار کی اہمیت رکھتی ہے۔۔۔۔ یہ تہوار سارے کیلاش میں خوشی کی ایسی لہر دوڑا دیتا ہے جسے شراب کی لذت مزید دوچند کردیتی ہے۔۔۔۔

میت کی تاریخ۔۔۔پہلا دن
دنیا کی انوکھی ثقافت اور روایات والے قبیلے کیلاش کے باشندوں کی ایک اور عجیب و غریب روایت اس وقت سامنے آتی ہے۔۔۔جب کیلاش میں کسی کا انتقال ہوجائے۔۔۔کسی کے انتقال پر کیلاش کے باسی اپنا گھرتک لٹا دیتے ہیں۔۔۔۔کیلاش میں یہ کہاوت مشہور ہے کہ یہاں جس گھر میں کسی کی موت ہوجائے تو سمجھ لو اس خاندان کو موت آگئی ۔۔۔یہاں شادی بیاہ سے زیادہ اخراجات اموات پر ہوتے ہیں۔۔۔وادی کیلاش میں عام طور پر کسی کے انتقال پر بیس سے تیس لاکھ روپے تک خرچ آجاتا ہے۔۔۔میت والا خاندان اپنے سارے مال مویشی بیچ دیتا ہے۔۔۔گھر بھی فروخت کرڈالتا ہے اور گھر کا سامان بھی۔۔۔۔۔اور پھراس خاندان کی ساری زندگی قرض اتارنے اور نئے سرے سے مال و اسباب جمع کرنے میں خرچ ہوجاتی ہے۔

آج کیلاش کی تینوں وادیوں میں اداسی پھیلی ہوئی ہے۔۔مسکراتی آنکھوں میں آنسو اٹکے ہوئے ہیں۔۔گنگناتے ہونٹ خاموش ہیں۔۔۔۔اور سرخ و سپید چہروں پر دکھ کی پیلاہٹ تیر رہی ہے۔۔۔۔آج یہاں ایک نوجوان دوشیزہ ’’شیموئے‘‘ کی موت واقع ہوگئی ہے۔۔۔جس کی شادی کو صرف چھ ماہ کا عرصہ ہوا تھا۔۔۔کچھ عرصہ قبل یہاں ایک جاپانی سیاح آیا تھا۔۔۔اور اسے شیموئے پسند آگئی تھی۔۔۔۔اس سیاح نے تہوار کا انتظار کیا۔۔۔۔اور تہوار کے آتے ہی جاپانی سیاح نے شیموئے سے شادی کرلی۔
جاپانی سیاح اکثر کیلاش کے باشندوں سے کہتا تھا کہ کیلاش کی ثقافت قدیم جاپانی ثقافت سے بے حد مماثلت رکھتی ہے۔۔یہی وجہ تھی کہ وہ ایک کیلاشی دوشیزہ پر اپنا دل ہار بیٹھا تھا۔۔۔شادی کے دوماہ بعد ہی جاپانی سیاح جاپان چلا گیا۔۔۔تاکہ اپنی بیوی کو جاپان بلانے کے انتظامات کرسکے۔۔۔لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔۔۔۔۔جاپانی سیاح کے جانے کے صرف دوماہ بعد ہی شیموئے دل کی بیماری کے باعث اپنی جان دے بیٹھی!!۔۔۔۔اور آج سارا کیلاش شیموئے کی لاش کے قریب کھڑا عجیب انداز میں بین کررہا ہے۔

یہاں جب کسی کی موت واقع ہوجاتی ہے تو لاش کو تین دن تک دفنایا نہیں جاتا۔۔۔۔اگر بارش یا برف باری ہوجائے تو لاش گھر کے اندر رکھ دی جاتی ہے۔۔۔۔لیکن چاہے آندھی آئے یا طوفان۔۔تین دن سے پہلے کسی لاش کے نصیب میں تدفین نہیں ہوتی۔۔۔۔بس میت کو چارپائی پر رکھ دیا جاتا ہے۔۔اور مرنے والے کی من پسند اشیاء بھی اس کے قریب رکھ دی جاتی ہیں۔۔۔چاہے وہ قیمتی زیور ہو۔۔۔میوہ ہو۔۔۔کھلونے ہوں ۔۔۔آرائشی اشیاء ہوں یا تمباکو ہو!!!

وادی کیلاش کی مسکراتی وادی میں جب کسی گھر سے کوئی میت اٹھتی ہے تو ہر طرف سوگ منایا جاتا ہے۔۔تینوں وادیاں دکھ میں ڈوب جاتی ہیں۔۔۔۔خوشی کی تمام تقریبات منسوخ ہوجاتی ہیں۔۔۔۔اور اس دکھ کی گھڑی میں ہزاروں افراد اپنے تمام ضروری کام چھوڑ کر میت والے خاندان کی دل جوئی کے لئے جمع ہوجاتے ہیں۔۔چاہے دن ہو یا رات ہو۔۔۔۔چاہے راستوں میں جتنی بھی دشواریاں ہوں۔۔۔چاہے موسم جتنا بھی خراب ہو۔

کیلاش میں جب کسی کی موت واقع ہوتی ہے تو لوگ اس کے گرد کھڑے ہوکر الگ الگ انداز میں بین کرتے ہیں۔۔ قریبی لوگ مرنے والے کی خوبیوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔۔اور رونے والے مزید دھاڑیں مارمارکرروتے چلے جاتے ہیں۔
کوئی کہتا ہے۔۔۔تم کتنی اچھی تھیں۔۔۔۔بچوں سے کتنا پیار کرتی تھیں۔۔ماں باپ کی کتنی خدمت کرتی تھیں!!
کوئی کہتا۔۔۔۔۔تم جب گھر سے باہر نکلتی تھیں تو ہر ایک چھوٹے بڑے کو ایش پاتا کہتی تھیں۔۔۔تمہارا اخلاق کتنا اچھا تھا۔۔۔
کوئی یوں بین کرتا۔۔۔ہائے تم کیوں مرگئیں۔۔۔۔ابھی تو تمہارے خوشیاں دیکھنے کے دن تھے۔۔۔کچھ دن بعد تو تمہارا شوہر آنے والا تھا۔
انہی سوگواران میں بوڑھا ’’دُرشابا‘‘ بھی موجود ہے۔۔۔۔درشابا شیموئے کا چاچا ہے۔۔۔اور اس سے اپنی بھتیجی کے جانے کا دکھ برداشت نہیں ہورہا۔۔۔اور وہ رو رو کر فریاد کررہا ہے۔
شیموئے ۔۔واپس آجاؤ۔۔۔تم اپنے بوڑھے چاچا کو چھوڑ کر کیوں چلی گئی ہو۔۔۔میں تمہارے شوہر کو کیا جواب دوں گا۔۔۔۔بولو شیموئے ۔۔تم جواب کیوں نہیں دے رہی ہو‘‘

وادی کیلاش میں ایک مخصوص جگہ ہے جہاں کی دیواروں پر مارخورکی تصاویر کندہ ہیں۔۔۔کیلاش میں جب کسی کی موت واقع ہوجاتی ہے تو میت اس مخصوص جگہ لائی جاتی ہے۔۔۔۔اور پھر مقامی لوگ عجیب و غریب کلمات پڑھنے لگتے ہیں۔۔۔جیسے یہ کوئی عبادت گاہ ہو۔۔۔اس مخصوص جگہ کا ایک اور انوکھاپن یہ بھی ہے کہ یہاں روشندان دیوار میں نہیں بلکہ چھت پر ہے۔۔۔جہاں سے آتی ہوئی روشنی میں روتے ہوئے اور بڑبڑاتے ہوئے کیلاشی انتہائی پراسرار دکھائی دیتے ہیں۔۔۔یہ منظر دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ہم اکیسویں صدی میں نہیں۔۔۔۔۔بلکہ قدیم وقتوں کی الیف لیلوی داستان کا حصہ ہوں۔

میت کے پہلے دن ہزاروں لوگ جمع ہوتے ہیں۔۔۔ان لوگوں کو کھانے میں روٹی اور پنیر دیا جاتا ہے۔
روٹیوں کی بھی یہاں ایک دلچسپ کہانی ہے۔۔۔۔جب کسی وادی میں کسی کی موت واقع ہوجاتی ہے تو تینوں وادیوں کے ہر گھر میں آٹا پہنچادیا جاتا ہے۔۔۔اور ہر گھر سے سیکڑوں روٹیاں پکا کر میت کے گھر لائی جاتی ہیں۔۔۔کیلاش کے نوجوان اور بوڑھے کمر پر روٹیوں کے ٹوکرے اٹھائے اونچے نیچے دشوارگزار راستوں سے گزرتے ہوئے میت والے گھر پہنچتے ہیں۔۔۔۔ہزاروں لوگوں کو ایک ساتھ کھانا کھلانا مشکل کام ہے ۔۔اس لئے لوگوں کو مختلف ٹولیوں کی صورت میں کھانا تقسیم کیا جاتا ہے۔۔۔۔کھانے کی یہ تقسیم سورج غروب ہونے تک جاری رہتی ہے۔۔۔اور پھر آہستہ آہستہ رات کا پرندہ پرپھیلاتا چلاجاتا ہے اور کیلاش کی وادی اندھیرے میں ڈوبتی چلی جاتی ہے۔

دوسرا دن ۔
دوسرے دن کا سورج کیلاش کے سربلند پہاڑوں سے ابھرتا ہے۔۔۔۔اور غم میں ڈوبی ہوئی وادی کو روشنی میں نہلادیتا ہے۔
میت کے دوسرے دن گو کہ لاش پھولنے لگی ہے۔۔اور بدبوبھی پھیلنے لگی ہے۔۔۔پھر بھی میت کے گردلوگوں کا ہجوم موجود ہے۔
میت کے دوسرے دن ایک بزرگ کو سارے معاملے سنبھالنے کے لئے نگران مقرر کردیا جاتا ہے۔۔۔شیموئے کی تدفین اورمیت کی رسومات کی ذمہ داری وادی کا بزرگ ’’دریون بابا‘‘ سنبھال رہا ہے۔۔دریون بابا لاٹھی ٹیکتا میت کی طرف بڑھ رہا ہے۔۔۔اسے تینوں وادیوں سے آئے ہوئے افراد کی ضروریات کا خیال بھی رکھنا ہے۔۔۔میت کے خاندان کے معاملات بھی حل کرنا ہے۔۔۔۔اورکھانے کی نگرانی بھی کرنی ہے۔۔۔۔ہر کام اس بزرگ کی رائے لیکر کیا جاتا ہے۔۔۔اور پھر اس بزرگ کی زیرنگرانی تمام سوگواران کو کھانا کھلایا جاتا ہے۔

یہاں کھانے پکانے کے طریقے کار بھی کم حیرت انگیز نہیں ۔۔۔۔تقریباً سو، ڈیڑھ سو کے قریب گائے ، دبنے اور بکرے کاٹے جاتے ہیں۔۔۔اور ان کا گوشت آنتوں سمیت پکانے کے لئے رکھ دیا جاتا ہے۔۔نہ گوشت کو پانی سے دھویا جاتا ہے۔۔نہ خون صاف کیا جاتا ہے۔۔اور کھانے میں مصالحہ جات ڈالنے کے تکلفات بھی گوارا نہیں کئے جاتے۔
کھانا تیار ہوتے ہی لوگ جوک درجوک آتے ہیں۔۔۔مختلف ٹولیوں میں کھانا کھاتے ہیں۔۔۔۔دریون بابا کی عقابی آنکھیں تمام معاملات دیکھے جاتی ہیں۔۔۔۔۔اور دیکھتے ہی دیکھتے دوسرے دن کا سورج غروب ہوجاتا ہے۔۔۔اور آسمان کی چادر ستاروں سے بھرجاتی ہے۔

تیسرا دن۔
دکھ میں ڈوبی ہوئی آنکھیں ابھی نیند کے خمار میں ہی تھیں کہ تیسرے دن کے سورج کی دستک نے ایک بار پھر سوئے ہوئے منظروں کو بیدار کردیا۔۔۔میت کی آخری رسومات ادا کرنے کے لئے کیلاش کے مقامی میت کے گرد اکٹھے ہونے لگے۔

مقامی لوگ میت کو چارپائی پر اٹھائے روتے پیٹتے ایک مخصوص مقام تک لے جاتے ہیں۔۔دشوارگزار راستوں سے گزرتے ہوئے، آنکھوں میں آنسوؤں کے موتی پروتے ہوئے اور دل میں یادوں کے طوفان دباتے ہوئے شیموئے کی میت آگے بڑھتی جاتی ہے۔۔۔اور پھر ایک مخصوص جگہ پہنچ کرشیموئے کو دفنا دیتے ہیں۔
پہلے کیلاش کے سادہ لوح افراد تابوت پر ایک بھاری پتھر رکھ کر چلے جاتے تھے۔۔۔لیکن اس طرح رات کی تاریکی میں کچھ لالچی لوگ چوری چھپے آتے اور تابوت کھول کرقیمتی اشیاء چوری کرلیتے ۔۔۔ان چوروں سے بچنے کے لئے اب میت کوتابوت سمیت قبرمیں دفنایا جاتا ہے۔۔۔تاکہ قیمتی اشیاء چوری ہونے سے بچ جائیں۔۔۔۔۔
آخر کار شیموئے کو سپرد خاک کردیا گیا ہے۔۔۔اورحزن وملال میں ڈوبا یہ قافلہ دوبارہ لکڑی کے انہیں مکانوں کی طرف بڑھ گیا۔۔جو صدیوں سے ان کی جائے امان ہیں۔
وادی کیلاش کی ایک اور مختلف رسم یہ بھی سامنے آئی کہ یہاں تابوت بنانے والے نہ اپنی محنت کے پیسے لیتے ہیں نہ لکڑی کے۔۔۔بس یہ تابوت زندہ لوگوں کی طرف سے مرنے والے کے لئے آخری تحفہ سمجھا جاتا ہے۔


تاریخ کے طالب علموں کو اس امر پر حیرت ضرور ہوگی کہ آج سے ہزاروں سال پہلے مصر کے فرعون اور باشندے بھی مرنے والے کی قیمتی اشیاء اس کے ساتھ ہی دفن کردیتے تھے۔۔۔شاید یہی وجہ ہے کہ کچھ تاریخ دان کیلاش کے افراد کو مصری تہذیب کی باقیات سمجھتے ہیں۔

کیلاش کے قبائلی رواجوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بیسویں صدی عیسوی سے پہلے تک یہاں کے رواج انتہائی زیادہ اور وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے تھے۔۔۔لیکن گذشتہ صدی میں سائنس و ٹیکنالوجی کے اٹھنے والے طوفان نے ان کیلاشیوں کی زندگیوں میں تبدیلیاں برپا
کردی ہیں۔۔کئی کیلاشی نوجوان روزگار کی تلاش میں ملک کے دور دراز علاقوں میں پہنچ گئے ہیں ۔۔اور انہوں نے صدیوں پرانے رسم و رواج ترک کردئیے ہیں۔۔کیلاش کے باسیوں کی سوچ یہ بھی ہے کہ آج کل کیلاش کے قبیلے میں تعلیم کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔۔جو جو پڑھ لکھ جاتے ہیں وہ کیلاش کی روایات اور رسومات کو بوسیدہ اور فرسودہ قرار دے کر اپنا رہن سہن تبدیل کرلیتے ہیں۔اور شہروں میں چلے جاتے ہیں۔۔اس کی ایک تازہ مثال ایک لیکشن Lakshanنامی کیلاشی دوشیزہ کی ہے۔۔جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد پائلیٹ بن گئی ہے۔جہا ں کسی کیلاشی دوشیزہ کا پائلیٹ بننا کیلاش کے لئے اعزاز ہے۔۔وہیں ایک خوف بھی ہے۔۔اور وہ ہے اپنی قدیم رسومات اور ثقافت کے معدوم ہونے کا خوف۔۔۔۔۔دیکھا جائے تو آج کل کیلاش کا یہ قبیلہ اپنی بقا کی جنگ لڑرہا ہے۔۔۔ گو کہ دنیا کی کئی تہذیبیں جن میں یونان سرفہرست ہے۔۔کیلاش کی تہذیب و ثقافت کو قائم رکھنے کے لئے اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔۔۔لیکن یہ وادی کیلاش میں بسنے والوں کی مستقل مزاجی ہی ہے ۔۔جس نے بیرونی دنیا کے اثرات سے اب تک اپنے جداگانہ وجود کو برقرار رکھا ہوا ہے۔

کیلاش کے باشندے کہاں سے آئے۔۔۔ان کی رسم و رواج کتنی قدیم ہیں۔۔اور ان کا تعلق کس قوم سے ہے۔۔۔ان سوالوں کے سیکڑوں جواب سامنے آچکے ہیں۔۔۔لیکن کیلاش قوم کی حقیقت کیا ہے۔۔۔۔اس راز کا ادراک حاصل کرنے میںآج بھی برسوں کی تحقیق درکار ہے۔

0 comments:

Post a Comment